
سوڈان: الفاشر میں ہونے والے وحشیانہ قتل عام کے بعد، انسانی حقوق کی پامالیوں میں شدت، عالمی برادری کی شدید مذمت
سوڈانی ڈاکٹرز نیٹ ورک نے تصدیق کی ہے کہ سعودی ہسپتال کے اندر داخل ہونے والے ہر شخص کو بغیر کسی تفریق کے مار ڈالا گیا
الفاشر، سوڈان: سوڈان کے مغربی علاقے دارفور کے شہر الفاشر میں تازہ ترین حملے اور قتل عام کی اطلاعات نے ایک بار پھر عالمی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان حملوں میں پیرا ملٹری گروپ "ریپڈ سپورٹ فورسز” (RSF) کے جنگجوؤں کی طرف سے کیے گئے بڑے پیمانے پر قتل عام اور جنگی جرائم کی تشویشناک رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ یہ حملے اس وقت ہوئے جب اتوار کو آر ایس ایف نے الفاشر پر قبضہ کر لیا، اور پھر ایک کے بعد ایک قتل عام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
قتل عام کے آثار: سعودی ہسپتال کے سامنے خونریزی
سوڈانی ڈاکٹرز نیٹ ورک نے تصدیق کی ہے کہ سعودی ہسپتال کے اندر داخل ہونے والے ہر شخص کو بغیر کسی تفریق کے مار ڈالا گیا، بشمول مریض، ان کے ساتھی اور وہاں کام کرنے والے طبی عملہ۔ سعودی ہسپتال کی سیٹلائٹ تصاویر میں واضح طور پر خون آلود زمین اور لاشوں کے جھرمٹ دکھائی دے رہے ہیں، جو قتل عام کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان تصاویر کی بنیاد پر، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 460 سے زائد افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
ایک ویڈیو جس میں ایک بوڑھے شخص کو زمین پر بیٹھا دکھایا گیا ہے، اس کے ارد گرد درجنوں لاشیں پڑی ہیں، اور پھر ایک باغی جنگجو نے قریب آ کر اس شخص کو گولی مار دی۔ اس ویڈیو کو باغیوں نے خود آن لائن شیئر کیا، جس سے ان کے جنگی جرائم کے ارتکاب کا مزید پختہ ثبوت ملتا ہے۔
آر ایس ایف کی تردید اور الزام
آر ایس ایف کے سربراہ محمد ہمدان دگالو (ہمدتی) نے بدھ کو ایک بیان میں الفاشر میں ہونے والی "خلاف ورزیوں” کا اعتراف کیا، اور کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ تاہم، گروپ نے سعودی ہسپتال میں ہونے والی ہلاکتوں کی تردید کرتے ہوئے اسے "من گھڑت بیانیہ” قرار دیا، اور دعویٰ کیا کہ یہ دعوے حقیقت سے بعید ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس تردید کو مسترد کرتے ہوئے آر ایس ایف کے وحشیانہ اقدامات کی مذمت کی ہے۔
ہزاروں افراد کا قتل، خواتین اور بچوں پر جنسی تشدد
الفاشر میں ہونے والے حملوں کے بعد سے کئی عینی شاہدین اور زندہ بچ جانے والوں کی شہادتوں میں پھانسیوں، عصمت دری اور قتل کی کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ اس کے علاوہ، سوڈان میں جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے بین الاقوامی برادری کو گہرے طور پر تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان حالات میں خواتین اور لڑکیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور ان کے ساتھ منظم طریقے سے جنسی تشدد کیا جا رہا ہے۔
پچھلے تین دنوں میں، باغیوں کی طرف سے شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں بڑی تعداد میں غیر مسلح افراد کو پکڑ کر مارا جاتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ ان ویڈیوز میں واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ باغی افراد کسی سویلین کو قتل کرتے ہیں اور ان کے جسموں کو شہر کے مختلف حصوں میں پھینک دیتے ہیں۔
سوڈانی فوج اور RSF کے درمیان خانہ جنگی: عالمی ردعمل
سوڈان میں جاری خانہ جنگی، جس میں سوڈانی فوج (SAF) اور آر ایس ایف کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے، اب ایک انسانیت سوز بحران بن چکا ہے۔ 2021 میں ہونے والی بغاوت کے بعد سے دونوں فریقوں میں اقتدار کی کشمکش نے 2023 میں مکمل جنگ کی شکل اختیار کی، جس نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ لیا ہے اور سوڈان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
اقوام متحدہ اور امریکہ نے کہا ہے کہ سوڈانی فوج اور آر ایس ایف نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ خاص طور پر آر ایس ایف پر دارفور میں غیر عرب نسلی گروپوں کے خلاف نسل کشی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ سوڈان کے دارفور علاقے میں 120,000 سے زائد افراد پھنسے ہوئے ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ بچے ہیں۔
اقوام متحدہ کی مذمت اور عالمی سطح پر دباؤ
اقوام متحدہ نے سوڈان میں ہونے والے قتل عام کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ جنگی جرائم کی بدترین مثال ہے۔ عالمی ادارہ نے مطالبہ کیا ہے کہ سوڈانی حکام اور جنگی گروہ فوری طور پر انسانی حقوق کے خلاف کی جانے والی خلاف ورزیوں کو بند کریں اور متاثرہ علاقوں میں فوری انسانی امداد فراہم کریں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے بھی آر ایس ایف کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر نے کہا کہ "سوڈان میں جاری جنگ انسانیت کے خلاف جرائم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ "اگر فوری طور پر کارروائی نہ کی گئی تو سوڈان میں انسانی بحران کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔”
مستقبل کا منظر نامہ
سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی شدت نے عالمی برادری کو ایک چیلنج کا سامنا کرایا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ سوڈان میں فوری طور پر جنگ بندی کرائی جائے اور متاثرہ علاقوں میں انسانی امداد پہنچائی جائے۔ ساتھ ہی، سوڈان میں جنگی جرائم کے ارتکاب میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے وحشیانہ واقعات کا مستقبل میں تدارک ہو سکے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آیا عالمی برادری سوڈان میں ہونے والے اس انسانیت سوز بحران کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گی؟ یا سوڈان کے عوام کو اپنی آزادی اور حقوق کے لیے مزید خون ریزی کا سامنا کرنا پڑے گا؟ یہ وقت بتائے گا، لیکن ایک بات واضح ہے کہ سوڈان میں جاری اس وحشت کی کہانی نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔



