کاروباراہم خبریں

رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں ایف بی آر کا 274 ارب روپے کا ٹیکس شارٹ فال — سیلز ٹیکس کلیکشن میں کمی بڑی وجہ قرار

“ایف بی آر کو ٹیکس نیٹ میں وسعت، شفافیت اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو تیز کرنا ہوگا، ورنہ مالیاتی خسارہ مزید بڑھے گا۔”

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) رواں مالی سال 2025-26 کے ابتدائی چار ماہ (جولائی تا اکتوبر) کے دوران اپنے محصولات کے ہدف سے 274 ارب روپے کم وصول کر سکا۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق، یہ شارٹ فال بنیادی طور پر سیلز ٹیکس کی وصولی میں نمایاں کمی کے باعث ہوا ہے، جس کی بڑی وجوہات میں بجلی کی بندش، معاشی سست روی، اور بڑھتی ہوئی سولرائزیشن شامل ہیں۔


ہدف سے 274 ارب روپے کم، مگر گزشتہ سال کے مقابلے میں 12 فیصد اضافہ

اعداد و شمار کے مطابق، ایف بی آر نے جولائی سے اکتوبر کے دوران 38 کھرب 35 ارب روپے اکٹھے کیے، جبکہ ہدف 41 کھرب 8 ارب روپے رکھا گیا تھا۔
اگرچہ ہدف حاصل نہ ہو سکا، لیکن ریونیو کلیکشن میں گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 12 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جب ایف بی آر نے 34 کھرب 23 ارب روپے اکٹھے کیے تھے۔

ماہرین کے مطابق، یہ اضافہ بنیادی طور پر درآمدی محصولات اور انکم ٹیکس کی وصولیوں میں بہتری کے باعث ہوا، تاہم مقامی سطح پر سیلز ٹیکس میں کمی نے مجموعی ریونیو کو متاثر کیا۔


اکتوبر میں بھی 75 ارب روپے کی کمی

اکتوبر کے مہینے میں ایف بی آر کی کارکردگی بھی ہدف سے کم رہی۔
ادارے نے 951 ارب روپے جمع کیے، جبکہ اس مہینے کا ہدف 10 کھرب 26 ارب روپے مقرر تھا — یوں 75 ارب روپے کا شارٹ فال سامنے آیا۔
تاہم گزشتہ سال اکتوبر کے مقابلے میں یہ ریونیو 8 فیصد زیادہ ہے، جب 879 ارب روپے اکٹھے کیے گئے تھے۔


انکم ٹیکس میں 11 فیصد اضافہ مگر 103 ارب روپے کا شارٹ فال

رپورٹ کے مطابق، جولائی تا اکتوبر کے دوران ایف بی آر نے انکم ٹیکس کی مد میں 17 کھرب 96 ارب روپے وصول کیے، جو ہدف 18 کھرب 99 ارب روپے سے 103 ارب روپے کم ہیں۔
اس کے باوجود، یہ وصولی گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 16 کھرب 11 ارب روپے کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق، کاروباری سرگرمیوں میں بتدریج بحالی اور آڈٹ پالیسیوں میں سختی کے باعث انکم ٹیکس ریونیو میں بہتری آئی ہے۔


سیلز ٹیکس میں 183 ارب روپے کی کمی — معیشت کا کمزور پہلو

اعداد و شمار کے مطابق، سیلز ٹیکس کی مد میں ایف بی آر نے 13 کھرب 59 ارب روپے اکٹھے کیے، جبکہ ہدف 15 کھرب 42 ارب روپے تھا۔
یوں اس شعبے میں 183 ارب روپے کا شارٹ فال ریکارڈ کیا گیا، جو مجموعی ریونیو خسارے کا سب سے بڑا حصہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی بندش، کارخانوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی، کمزور تجارتی سرگرمیاں، اور سولرائزیشن کے باعث بجلی کے بلوں پر عائد سیلز ٹیکس میں کمی اس شارٹ فال کی اہم وجوہات ہیں۔
تاہم اس کے باوجود، گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں سیلز ٹیکس کی وصولی میں 10 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔


کسٹمز ڈیوٹی میں بہتری — 13 ارب روپے ہدف سے زائد وصولی

چار ماہ کے دوران ایف بی آر نے کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 420 ارب روپے جمع کیے، جو مقررہ ہدف 407 ارب روپے سے 13 ارب روپے زیادہ ہیں۔
یہ گزشتہ مالی سال کے 376 ارب روپے کے مقابلے میں 12 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

ماہرین کے مطابق، درآمدات پر ٹیکس وصولی میں بہتری، خصوصاً گاڑیوں، مشینری اور تیل کی درآمد کے سبب کسٹمز ریونیو میں اضافہ ہوا۔


فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بھی نمایاں بہتری

ایف بی آر نے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی مد میں 259 ارب روپے اکٹھے کیے، جو ہدف 260 ارب روپے سے معمولی 1 ارب روپے کم ہیں۔
تاہم گزشتہ مالی سال کے 214 ارب روپے کے مقابلے میں ایف ای ڈی کلیکشن میں 21 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

ترجمان ایف بی آر کے مطابق، یہ اضافہ تمباکو، مشروبات، سیمنٹ، اور ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹرز میں بہتر کارکردگی کے باعث ممکن ہوا۔


ریفنڈز میں 21 فیصد اضافہ — برآمدی سیکٹر کو ریلیف

ایف بی آر نے جولائی تا اکتوبر کے دوران 206 ارب روپے کے ریفنڈز اور ریبیٹس جاری کیے، جو گزشتہ سال کے 170 ارب روپے کے مقابلے میں 21.17 فیصد زیادہ ہیں۔
ترجمان کے مطابق، یہ قدم برآمدی شعبے کی نقد روانی بہتر بنانے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔


معاشی ماہرین کی رائے — “ریفارمز کے بغیر اہداف مشکل”

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی کارکردگی میں بہتری کے باوجود ساختی اصلاحات، ڈیجیٹل مانیٹرنگ، اور ٹیکس بیس میں توسیع کے بغیر محصولات کے اہداف حاصل کرنا مشکل رہے گا۔
ان کے مطابق، سیلز ٹیکس نیٹ کی توسیع، نان فائلرز کے خلاف کارروائی، اور بجلی و گیس کے بلوں سے منسلک ٹیکس سسٹم میں شفافیت ضروری ہے۔


اختتامی نوٹ

چار ماہ میں 274 ارب روپے کے شارٹ فال کے باوجود ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولیوں میں 12 فیصد سالانہ اضافہ ملکی معیشت کی جزوی بحالی کا اشارہ دیتا ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیلز ٹیکس کلیکشن میں بہتری نہ لائی گئی تو سالانہ محصولات کا ہدف — جو 14 ہزار ارب روپے سے زائد ہے — حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔

“ایف بی آر کو ٹیکس نیٹ میں وسعت، شفافیت اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو تیز کرنا ہوگا، ورنہ مالیاتی خسارہ مزید بڑھے گا۔”
— ماہرینِ معیشت

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button