بین الاقوامیتازہ ترین

تنزانیہ کے صدارتی انتخابات میں صدر سامعہ سلوہو حسن کی بھاری اکثریت سے کامیابی — ملک بھر میں مظاہرے، تشدد اور ہلاکتوں کی اطلاعات

الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق، صدر حسن کو 31.9 ملین سے زائد ووٹ ملے جبکہ ٹرن آؤٹ 87 فیصد کے قریب رہا

ڈوڈوما (عالمی نیوز ایجنسی): مشرقی افریقی ملک تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد سیاسی اور عوامی ہنگامہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ الیکٹورل کمیشن کے مطابق، موجودہ صدر سامعہ سلوہو حسن نے تقریباً 97.66 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ہے، تاہم اپوزیشن اور انسانی حقوق کے اداروں نے انتخابی عمل کو "غیر شفاف” اور "جبر پر مبنی” قرار دیتے ہوئے نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق، صدر حسن کو 31.9 ملین سے زائد ووٹ ملے جبکہ ٹرن آؤٹ 87 فیصد کے قریب رہا، جو ملک کے 37.6 ملین رجسٹرڈ ووٹرز میں سے ایک بڑی تعداد ہے۔ تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں ووٹنگ کے دن ٹرن آؤٹ "کافی کم” دکھائی دیا، کیونکہ احتجاج اور بدامنی کے باعث متعدد پولنگ اسٹیشن بند رہے۔


مظاہرے اور جھڑپیں، درجنوں ہلاکتوں کی اطلاعات

انتخابی نتائج کے اعلان سے قبل ہی دارالحکومت ڈوڈوما، دارالسلام، اور زنجبار سمیت کئی شہروں میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اپوزیشن کے حامیوں نے انتخابی عمل کو "فراڈ” قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا، جبکہ کچھ مظاہرین نے صدر حسن کے بینرز پھاڑ دیے اور سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کر دیا۔

عینی شاہدین اور مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، ربڑ کی گولیاں اور بعض مقامات پر براہِ راست فائرنگ کی۔
تنزانیہ کی مرکزی اپوزیشن جماعت چاڈیما (Chadema) نے الزام لگایا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں سینکڑوں افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں، تاہم حکومت نے ان اعداد و شمار کو "انتہائی مبالغہ آمیز” قرار دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے مطابق، انہیں مصدقہ اطلاعات ملی ہیں کہ کم از کم 10 افراد تین مختلف شہروں میں ہلاک ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بیان میں "طاقت کے بے تحاشا استعمال” کے تمام الزامات کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا اور جانی نقصان پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔


حکومت کی وضاحت اور انکار

تنزانیہ کے وزیرِ خارجہ محمود تھابیت کومبو نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال "قابو میں” ہے اور مظاہروں کے دوران "بہت کم واقعات” ہوئے جن میں ملوث "جرائم پیشہ عناصر” کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اپوزیشن اور بین الاقوامی میڈیا "حقیقت کو مسخ کر کے” ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
دوسری جانب، حکومت نے انٹرنیٹ سروسز کو محدود کر دیا ہے اور ملک بھر میں گزشتہ تین راتوں سے کرفیو نافذ ہے تاکہ ممکنہ احتجاجی مظاہروں کو روکا جا سکے۔


اپوزیشن کی ناراضگی اور الزامات

مرکزی اپوزیشن پارٹی چاڈیما اور دوسری بڑی جماعت ACT-Wazalendo کو انتخابی دوڑ سے باہر کر دیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے چاڈیما کو اپریل میں نااہل قرار دیا تھا کیونکہ اس نے "ضابطہ اخلاق پر دستخط کرنے سے انکار” کیا تھا، جب کہ پارٹی کے رہنما ٹنڈو لیسو پر غداری کے الزامات عائد کیے گئے۔
ACT-Wazalendo کے امیدوار کو بھی نااہل قرار دیے جانے کے بعد صدر حسن کا مقابلہ صرف چند چھوٹی جماعتوں سے رہ گیا تھا، جنہیں عوامی سطح پر خاطر خواہ حمایت حاصل نہیں تھی۔

چاڈیما نے انتخابات کو "سیاسی ڈرامہ” قرار دیتے ہوئے ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے۔ پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ "یہ انتخابات عوامی مرضی کے نہیں، بلکہ حکومتی طاقت کے نتیجے میں ہوئے۔”


صدر سامعہ حسن کی کامیابی اور چیلنجز

65 سالہ صدر سامعہ سلوہو حسن نے 2021 میں اپنے پیش رو جان میگوفولی کی موت کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ وہ ملک کی پہلی خاتون صدر ہیں، جنہیں ابتدا میں بین الاقوامی سطح پر ایک "اعتدال پسند رہنما” کے طور پر سراہا گیا۔

انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد میڈیا پر عائد کچھ پابندیاں ختم کیں اور سیاسی مکالمے کی بحالی کا عندیہ دیا، تاہم گزشتہ سالوں میں اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں، مبینہ اغوا، اور سیاسی دباؤ کی اطلاعات سامنے آئیں جنہوں نے ان کی شبیہ پر سوالات اٹھا دیے۔

انتخابی مہم کے دوران صدر حسن نے اپنی حکومت کی کامیابیوں پر زور دیا، جن میں سڑکوں اور ریلوے نیٹ ورک میں توسیع، بجلی پیدا کرنے کے منصوبے، اور اقتصادی ترقی کے اقدامات شامل ہیں۔ تاہم ناقدین کے مطابق ان منصوبوں کے باوجود جمہوری اداروں کی کمزوری اور سیاسی آزادیوں کی کمی ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔


بین الاقوامی ردعمل

افریقی یونین اور یورپی یونین نے بھی انتخابی عمل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے بیان میں کہا کہ “تنزانیہ کے عوام کو اپنی قیادت آزادانہ طور پر منتخب کرنے کا حق حاصل ہے، اور کسی بھی قسم کی دھاندلی یا تشدد قابلِ قبول نہیں۔”

امریکہ کے محکمہ خارجہ نے بھی نتائج کے بعد تشدد پر "گہری تشویش” کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقوں سے تحمل، مذاکرات اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔


نتیجہ

تنزانیہ میں صدر سامعہ سلوہو حسن کی زبردست انتخابی کامیابی ایک طرف ان کی سیاسی گرفت کو مضبوط کر چکی ہے، لیکن دوسری طرف ملک شدید سیاسی تقسیم، عوامی بے چینی، اور بین الاقوامی تنقید کے بھنور میں پھنس گیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، اگر حکومت نے شفافیت اور مکالمے کا راستہ اختیار نہ کیا تو یہ بحران مشرقی افریقہ کے اس اہم ملک میں مزید عدم استحکام کو جنم دے سکتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button