
ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ: کثیر القومی فورس کی تشکیل میں پیچیدگیاں اور عالمی شراکت داروں کی محتاط حکمت عملی
یہ فورس غزہ کے تباہ شدہ انکلیو کو مستحکم کرنے، فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور اسرائیل و مصر کے ساتھ سرحدی حفاظتی اقدامات کو مؤثر بنانے کے لیے تشکیل دی جانی تھی
واشنگٹن/یروشلم/غزہ (نیوز ڈیسک): امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے اعلان کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا ہے، لیکن منصوبے کا ایک اہم جزو، انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (ISF)، ابھی تک عملی طور پر تعینات نہیں ہو سکا ہے۔ یہ فورس غزہ کے تباہ شدہ انکلیو کو مستحکم کرنے، فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور اسرائیل و مصر کے ساتھ سرحدی حفاظتی اقدامات کو مؤثر بنانے کے لیے تشکیل دی جانی تھی۔
ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا پس منظر
ٹرمپ نے 29 ستمبر کو غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کے موقع پر اپنے 20 نکاتی منصوبے کی تفصیلات جاری کی تھیں۔ منصوبے کا پہلا مرحلہ فلسطینی یرغمالیوں کی رہائی اور اسرائیل سے فلسطینی قیدیوں کی چھٹی شامل تھا، جبکہ دوسرا مرحلہ کثیر القومی فورس کی تشکیل کے لیے مخصوص تھا۔ اس فورس کا مقصد حماس کے زیر کنٹرول علاقے میں امن قائم کرنا، اسلحہ کی غیر قانونی آمد کو روکنا، اور مستقبل میں ممکنہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے تیاری کرنا تھا۔
امریکی حکام نے کئی ممالک کو ممکنہ شرکاء کے طور پر مدعو کیا، لیکن ابھی تک کسی ملک نے باضابطہ طور پر حصہ لینے کی تصدیق نہیں کی ہے۔ بعض ممالک نے اس اقدام میں حصہ لینے سے قبل مینڈیٹ، فورس کی تعداد، فیصلہ سازی کے عمل، اور تعیناتی کی مدت کے بارے میں وضاحت طلب کی ہے۔
عالمی شراکت داروں کی محتاط حکمت عملی
ممکنہ شراکت دار ممالک نے زور دیا ہے کہ فورس صرف عبوری ہو اور ایک محدود ٹائم لائن کے ساتھ تعینات کی جائے، تاکہ بااختیار فلسطینی اتھارٹی غزہ میں مکمل کنٹرول سنبھال سکے۔ ان ممالک نے ایک بین الاقوامی مینڈیٹ کی بھی درخواست کی ہے جو ISF کی قانونی حیثیت اور فورس کے دائرہ کار کو واضح کرے، جبکہ کچھ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور شدہ قرارداد کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یروشلم کے دورے کے دوران کہا کہ "کچھ ممالک اپنے قوانین کے تحت اس طرح کے اقدامات میں حصہ نہیں لے سکتے جب تک کہ ان کے پاس بین الاقوامی مینڈیٹ یا کسی معاہدے کی قانونی توثیق نہ ہو۔”
اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے بھی خبردار کیا کہ یہ فورس امن قائم کرنے والی ہوگی یا امن نافذ کرنے والی، اس کی قانونی وضاحت ضروری ہے، اور عالمی شراکت داروں کو "امن نافذ کرنے والی فورس” کے طور پر کسی جھڑپ میں حصہ لینے کی اجازت دینے میں احتیاط برتنی ہوگی۔
اسرائیل کی خدشات اور تحفظات
اسرائیلی حکام نے فورس میں شامل ہونے والے ممالک پر خدشات کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر ان ممالک کے بارے میں جو اسرائیل کو مخالف سمجھتے ہیں، جیسے ترکی۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ فورس کی تعیناتی مکمل شفافیت اور اسرائیلی فوج کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ ہو۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی سینئر فیلو لوسی کرٹزر-ایلن بوگن نے کہا کہ "تشکیل کے پیچیدہ معاملات، تخفیف اسلحہ کے مینڈیٹ کی غیر واضح صورتحال، اور اسرائیلی فوج کے ساتھ ہم آہنگی کے غیر یقینی عوامل، فورس کے آغاز کے لیے سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔”
غزہ میں موجودہ صورتحال
غزہ کے شہریوں نے جنگ بندی کے باوجود امن کے بغیر زندگی گزارنے پر مسلسل دباؤ محسوس کیا ہے۔ 29 اکتوبر کو شمالی غزہ کے الشاطی پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد شہری ایک بار پھر تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے گزرنے پر مجبور ہوئے۔ عالمی شواہد اور مقامی رپورٹس کے مطابق، غزہ میں عام شہریوں کی زندگی اب بھی خطرات اور غیر یقینی صورتحال کے تحت جاری ہے۔
فورس کے مینڈیٹ اور عملی چیلنجز
علاقائی عہدیداروں کے مطابق، فورس کے مینڈیٹ کی اہم تفصیلات ابھی تک طے نہیں ہوئیں، جن میں شامل ہیں:
فورس کی تعداد اور ہر ملک کے اہلکاروں کی تعداد
کمانڈ چین اور فیصلہ سازی کا عمل
اسرائیلی فوج کے ساتھ تعلق اور ہم آہنگی
تعیناتی کی مدت اور فورس کی قانونی حیثیت
ہتھیاروں اور سیکیورٹی وسائل کی نوعیت
یہ تمام عوامل طے کیے بغیر، ممکنہ شراکت دار ممالک غزہ میں فوجی فورس بھیجنے میں محتاط رویہ اپنا رہے ہیں۔
نتیجہ
ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ عالمی سطح پر پیچیدہ اور حساس نوعیت کا ہے، جس میں کثیر القومی شراکت، قانونی اور عملی چیلنجز، اور اسرائیل کی تحفظات شامل ہیں۔ اگرچہ منصوبے کا مقصد فلسطینی انکلیو میں امن قائم کرنا اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا ہے، لیکن بین الاقوامی تعاون، مینڈیٹ کی وضاحت اور عملی اقدامات کے بغیر فورس کی تعیناتی مشکل نظر آتی ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عالمی برادری ٹرمپ کے منصوبے کے فیصلے اور عمل درآمد کے لیے امریکی وضاحت اور یقین دہانیوں کا انتظار کر رہی ہے، جبکہ غزہ کے شہری روزانہ کے خطرات میں مبتلا ہیں اور امن کی کوئی مستقل ضمانت موجود نہیں۔



