کالمزناصف اعوان

قومی صحت توجہ کی متقاضی !…..ناصف اعوان

ستم مزید یہ کہ مریض کی حالتِ استعداد کو قطعی نہیں ملحوظ خاطر رکھا جاتا اس کے لواحقین کے ہاتھوں میں وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی پرچی تھما دی جاتی ہے

اگر یہ کہا جائے کہ ہماری قومی صحت تندرست نہیں تو غلط نہ ہو گا اس صورت میں ہماری مجموعی کارکردگی بھی متاثر ہو رہی ہے کیونکہ کوئی بھی شخص جب بیمار ہوتا پے تو لازمی اسے گھر میں رہنا پڑتا ہے وہ طوعأ کرہأ اپنے کام میں مصروف بھی ہو جاتا ہے تو اس کی ایک تندرست انسان کی سی کیفیت نہیں ہوتی لہذا اسے رک رک کر متحرک ہونا پڑتا ہے جس سے مقررہ ہدف پورا نہیں ہوتا لہذا اس پہلو کی طرف ہماری حکومتوں کو متوجہ ہو نا چاہئے مگر کوئی بھی حکومت جب وہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتی ہے اس کے پیش نظر ایسے پروگرام ہوتے ہیں جو دکھائی دینے والے ہوں ہر گزرنے والے کو نظر آئیں اس کا مقصد اسے (حکومت )لوگ سراہیں اس کی واہ واہ کریں اور وہ بھی ووٹوں کے موسم میں کہہ سکے ‘دیکھ لیں اُس نے عوام کے لئے کیا کچھ نہیں کیا مگر وہ صحت کے ضمن میں نہیں بتا تی کہ اس نے کیا ‘ کیا ؟ ہاں وہ یہ ضرور کہہ سکتی ہے کہ اسپتالوں میں ان کے لئے دوائیں مفت فراہم کرنے کے انتظامات کیے ۔ آگے چل کر بتائیں گے کہ یہ دوائیں صحت بحال کرتی ہیں یا مزید بگاڑتی ہیں ؟’
دراصل ہماری حکومتیں وہ نہیں جو عوام کی خوشحالی و ترقی کے لئے وجود میں آتی ہیں انہیں دلچسپی صرف اور صرف اپنی ذات سے ہوتی ہے جس کے لئے وہ سوچ بچار کرتی ہیں ۔ اب حالت یہ ہے کہ ٹان کی عدم توجہی سے ہر تیسرا شخص کراہ رہا ہے ۔کسی کو ذیابیطس ہے کسی کو بلند فشار خون کسی کو سرطان ایسا موذی مرض کسی کو تہ تپ دق کسی کو جگر کا عارضہ اور کسی کو خون کی کمی کا سامنا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ ابھی تک ایسی کوئی بھی سرکار نہیں آئی جو قومی صحت سے متعلق سنجیدگی دکھائے۔ آپ ان کے بجٹ دیکھ لیں جو انتہائی معمولی ہوتے ہیں اس طرح تعلیم کا بھی شعبہ ہے اس میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ برابر رقم مختص کی جاتی ہے اور سارا زور بہترین کارکردگی پر دیا جاتا ہے یعنی” ہنگ لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھا آئے“ دینا دلوانا کچھ نہیں رولا یونہی ڈالتے رہنا ہے۔ جو معمولی بجٹ منظور بھی کیا جاتا ہے وہ بھی انہیں بھاری معلوم ہوتا ہے لہذا شہ دماغوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ درسگاہوں کو خود مختار بنا دیا جائے دوسروں کو نجی تحویل میں دے دیا جائے اس پر عمل کا آغاز ہو چکا ہے یوں تعلیم مہنگی ہو گئی ہے۔
بات کا رخ ذرا دوسری طرف مڑ گیا ایسی کوئی قومی صحت پالیسی نہیں بنائی جارہی کہ جس سے بیماریوں سے چھٹکارا ملتا ہو ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس قدر اسپتالوں پر دباؤ ہے ایک بیڈ پر دو دو مریض ہوتے ہیں کوئی نیچے فرش پر بھی لیٹا ہوا ہے کسی کو برآمدے میں بستر پر لٹایا ہوتا ہے پھر ڈاکٹر حضرات توبہ توبہ اِدھر آتے ہیں اُدھر چلے جاتے ہیں نرسیں بھی اسی طرح کرتی ہیں بعض کے تو لہجے بڑے درشت ہوتے ہیں
ستم مزید یہ کہ مریض کی حالتِ استعداد کو قطعی نہیں ملحوظ خاطر رکھا جاتا اس کے لواحقین کے ہاتھوں میں وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی پرچی تھما دی جاتی ہے کہ فلاں دوا باہر سے لے آؤ اگرچہ موجودہ حکومت نے اس حوالے سے کچھ ریلیف دیا بھی ہے مگر کہتے ہیں چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے لہذا سرکاری طبیب اور ان کے زیر انتظام عملہ اپنی پرانی ڈگر پر رواں ہے شاید آسی لئے ہی ہمارے ارباب اختیار اپنی کسی معمولی تکلیف پر یورپ و مغرب کی طرف بھاگتے ہیں کیونکہ وہاں انسانی بنیادوں پر کسی مریض کی دیکھ بھال ہوتی ہے پھر جدید ٹیکنالوجی سے علاج ہوتا ہے کوئی دوا بھی غیر معیاری نہیں ہوتی۔ لہذا شفایابی کا مرحلہ جلد طے پا جاتا ہے ۔ ادھر تو آپ چند بڑے میڈیکل اسٹوروں کے ایک سوال ایک نمبر دوا حاصل ہی نہیں کر سکتے۔ عطائیوں نے الگ بندے مار پروگرام بنایا ہوا ہے گلی محلوں میں ان کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں ان کے پاس کوئی ڈپلومہ بھی نہیں ہوتا کہ چلیں فرسٹ ایڈ کے طور پے مریض کو ریلیف دے دیں۔ ظلم یہ کہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کی خاطر ہائی پوٹینسی کی دوا دیتے ہیں کہ جس سے مریض افاقہ محسوس کرتا ہے مگر اسے کیا معلوم کہ اس کے مضر اثرات اس کو اور پیچیدگیوں میں مبتلا کر ٔدیں گے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ لوگوں کو کوئی سرکاری اہلکار چیک نہیں کرتا تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اسے منتھلی دیتے ہیں ۔یہ عطائی جہاں کوئی نئی بستی بس رہی ہوتی ہے تو وہاں دکان کھول لیتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں ان بستیوں میں انہیں دیر تک کوئی نہیں پوچھتا کیونکہ اُدھر سے محکمہ صحت کے اہلکاروں کا گزر نہیں ہوتا مگر کچھ دیر کے بعد انہیں علم ہو جاتا ہے کہ عطائی کی کوئی دکان کھل چکی ہے پھر وہ اپنا ماہانہ لینے پہنچ جاتے ہیں۔
سوئی چبھو عطائیوں نے قانون کو دھوکا دینے کے لئے ایک یہ طریقہ بھی اختیار کیا ہے کہ انہوں نے جیسے تیسے ہومیو پیتھک کا ڈپلومہ کے رکھا ہوتا ہے جسے فریم کرا کے آویزاں کیا ہوتا ہے مگر دوا انگریزی دیتے ہیں تاکہ لوگ انہیں اصلی ڈاکٹر سمجھیں ان کی پکڑ ہو نی چاہیے ایک تو لوگ بے چارے بیماریوں کے ہاتھوں تڑپ رہے ہیں دوسرے یہ ان کی صحت کو اور برباد کر رہے ہیں سوال یہ بھی ہے کہ یہ عطائی کیوں ایسا کر رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری ہیلتھ پالیسی غیر عوامی ہوتی ہے اور مستند طبیب بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں ٹیسٹ پے ٹیسٹ کرواتے ہیں غریبوں کے لئے تو دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو چکا ہے وہ اتنا مہنگا علاج کیسے کروائیں لہذا وہ جعلی دوائیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور ان عطائیوں سے دوا لے کر اپنی تکلیف دور کرتے ہیں ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس اہم ترین حساس پہلو کی طرف توجہ دیں اگر لوگ صحت مند ہوں گے تو انہیں غربت بھی پریشان نہیں کرے گی وہ ملکی ترقی میں اپنا کردار بھر پور طور سے ادا کر یں گے ان کی سوچ صحت مند ہو گی تو ان کے بارے میں بھی وہ اچھا سوچیں گے لہذا ایک ایسی پالیسی بنائی جائے کہ جس سے بیماریوں میں کمی آئے اسپتالوں میں بڑھتے ہوئے دباؤ پر قابو پایا جا سکے ہمارے ایک دوست بتا رہے تھے کہ جرمن میں اکثر اوقات سارا سارا دن ڈاکٹر اور نرسیں فارغ بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ مریض ہی نہیں ہوتے. کاش! ہمارے اسپتالوں میں بھی کسی روز ایسا ہو سکے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button