
یہ جو ملتان سے محبت ہے ( قسط 4 )…….حیدر جاوید سید
ضیائی آمریت کے اس سیاہ ترین دن کو آگے پیچھے کرنے کے تاریخ مسخ کرنے کی بھونڈی کوشش پر خلیفہ کبھی شرمندہ نہیں ہوا فقیر راحموں کے بقول خلیفہ جماندرو شرم پروف ہے
ہم ملتان اور ملتانیوں کی باتیں کررہے ہیں اُن ماہ و سال کی باتیں جن کے بارے میں قبل ازیں عرض کرچکا کہ تب ملتان ایک ترقی پسند روشن فکر اور عوام دوست شہر تھا تعلیمی اداروں کی طلبا انجمنوں ، چھوٹی بڑی صنعتوں اور محکموں و اداروں کی مزدور یونینوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے جگ مگ کرتا ملتان اسی ملتان کی دو اہم مزدور یونینیں شہر کی ترقی پسند سیاست میں ریڑھ کی ہڈی کے مقام کی حامل تھیں
ان دونوں مزدور یونینوں میں زیادہ اہمیت کھاد فیکٹری کی مزدور یونین کی تھی نثار خان اس کے صدر تھے طویل عرصے تک انہوں نے محنت کشوں کی سیاست کا پرچم بلند کیا دوسری مزدور یونین کالونی ٹیکسٹائل ملز کی تھی اس کے روح رواں شیر علی اور رانا جان محمد تھے
یہ وہی کالونی ٹیکسٹائل ملز ہے جہاں جنرل ضیا الحق کی سفاک آمریت کے برسوں میں فوجی حکومت اور سرمایہ داری کے گٹھ جوڑ سے مزدوروں کا قتل عام ہوا تھا ، چند برس قبل انجمن متاثرین جماعت اسلامی و جنرل ضیا الحق والے ہارون الرشید ( ہارون الرشید آجکل انجمن عاشقانِ عمران خان کا حصہ ہیں ) نے اس سفاکانہ قتل عام کے ماہ و سال بدل کر اپنے کالم میں اس خونی واقع کو پیپلز پارٹی کے دور کا واقع لکھا
تب اس طالبعلم کو خلیفہ ہاروالرشید کو بتانا پڑا کہ یہ بربریت سے عبارت واقع ان کے محبوب جنرل ضیا الحق کے دور میں رونما ہوا تھا اور یہ کہ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ مزدوروں سے تعزیت و اظہار یکجہتی کیلئے بھیس بدل کر ملتان پہنچی تھیں
ضیائی آمریت کے اس سیاہ ترین دن کو آگے پیچھے کرنے کے تاریخ مسخ کرنے کی بھونڈی کوشش پر خلیفہ کبھی شرمندہ نہیں ہوا فقیر راحموں کے بقول خلیفہ جماندرو شرم پروف ہے اس نے تعمیر ملت اسکول گلمرگ روڈ رحیم یار خان والے واقع پر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کی
تعمیر ملت اسکول والے قصے کو جانے دیجئے اور خلیفے کو بھی جنہیں ان کا حلقہ احباب پیار سے ” چاچا کُپی ” کہتا ہے
ہم ملتان کی باتیں کرتے ہیں میرا جی چاہتا ہے جو حافظے میں محفوظ ہے وہ سب لکھ ڈالوں بھلے فوری طورپر ترتیب درست نہ ہو ترتیب بعد میں بھی درست کی جاسکتی ہے گر وقت زندگی اور حافظہ رہے
ملتان میں بالائی سطور میں ذکر ہوئی دو مزدور تنظیموں کے بعد اگلے برسوں میں ایک اور ترقی پسند مزدور یونین نے محنت کشوں کے حلقوں سے باہر عوام میں بڑی مقبولیت حاصل کی یہ تھی جی ٹی ایس مزدور یونین ( گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس ملتان زون کی مزدور یونین ) ملک منظور حسین ، الہی بخش لغاری اور ممتاز راکٹ اس جی ٹی ایس مزدور یونین کے روح رواں تھے
جنرل ضیا کے پُر آشوب دور میں ان تینوں مزدور رہنماؤں نے لمبی جیل کاٹی اور بڑی بہادری کے ساتھ عشرہ بھر قبل ملک منظور حسین سے ملتان کچہری میں حکیم محمود خان غوری ایڈووکیٹ کے چیمبر میں دوتین ملاقاتیں رہیں معلوم ہوا کہ ملک صاحب کچہری میں ٹھیکے پر کنٹین چلارہے ہیں
ممتاز راکٹ فقط نام کے راکٹ نہیں تھے یوں کہہ لیجے وہ مزدور یونین کی سیاست کے راکٹ لانچر تھے فوجی آمریت کے ہرکاروں کو انہوں نے ناکوں چنے چبوائے الہی بخش لغاری دلچسپ شخص تھے دائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں سگریٹ رکھ مُٹھی بند کرکے لمبا کش لگاتے اور دھوئیں مرغولے بناتے
اُن برسوں میں مزدور یونین کی سیاست کے فعال رہنماوں کی اکثریت نظریاتی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھتی تھی اسلام پسند بھی تھے متاثرین جماعت اسلامی یہ این ایل ایف کے نام سے کام کرتے تھے
مزدور رہنماؤں کی شہر میں تین بڑی بیٹھکیں جمتیں ایک جی ٹی ایس ڈیرہ اڈہ اسٹینڈ کی کنٹین کے باہر دوسری ملتان کینٹ کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 2 پر اور تیسری قلعہ کہنہ قاسم باغ والے کیفے عرفات میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ان مزدور کسان طلبا و سیاسی کارکنوں کی بیٹھکوں کے علاوہ ایک ہفتہ وار اکٹھ پیپلز پارٹی کے بانی رہنماوں میں شامل ملک الطاف علی کھوکھر کی اقامت گاہ پر اتوار کو ہوا کرتا تھا
یہ سلسلہ کئی عشروں تک جاری رہا ( ممکن ہے اب بھی جاری ہو طالبعلم اس سے بے خبر ہو ؟) ملک صاحب ان دنوں علیل ہیں چند
برس قبل تک یہ ہفتہ وار اکٹھ باقاعدگی سے منعقد ہوتا تھا
ملتان میں ترقی پسندوں کا ایک اور مستقل ٹھکانہ گلڈ ہوٹل کے قریب لالہ منصور کریم سیال کا گھر رہا یہ صرف ملتان شہر ہی نہیں بلکہ سرائیکی وسیب کے مختلف الخیال ترقی پسند اور قوم پرست کارکنوں کا ٹھکانہ رہا منصور کریم سیال کے گھر کی شہرت یہ تھی کہ یہاں قیام و طعام کی سہولت بلا امتیاز میسر رہتی مکالمے کی مجلسیں برپا ہوتیں کسی وجہ سے مسافر مہمان کے پیسے ختم ہوجائیں تو واپسی کا کرایہ بمعہ خرچہ مل جاتا تھا
منصور کریم سیال کچھ عرصہ قبل وفات پا گئے ہیں کیا شاندار اور محبتی دوست تھے ہم نے ان کی الہڑ جوانی کے ماہ و سال دیکھے ہیں بوسکی کی قمیض سفید لٹھے کی شلوار ہاتھ میں ڈن ہل سگریٹ کی ڈبیا دونوں ہاتھوں سے دوستوں اور ہم خیالوں پر نچھاور کرتے رہنے والے منصور کریم سکہ بند ترقی پسند تھے زندگی کے آخری برسوں میں علیل رہے لیکن محفلوں اور سیاسی اکٹھوں میں شرکت کیلئے پہنچ جاتے تھے
کوشش کروں گا اس سلسلہ وار تحریروں میں ان کیلئے الگ سے ایک تحریر لکھوں
ملتان کے سیاسی کارکنوں اور قوم پرستوں کے ایک اور مستقل ٹھکانے کا ذکر بھی از بس ضروری ہے یہ ٹھکانہ خانیوال روڈ پر لنگاہ ہاوس سے کچھ فاصلے پر ایک گلی میں لالہ سید زمان جعفری کا گھر تھا
یہاں سیاسی و قوم پرست کارکنوں کے ساتھ رندانِ خرابات کا ہجوم سرِ شام جمع ہوجاتا
اور ظرف کے مطابق ” توفیق ” پاتا اس توفیق پانے کی لمبی چوڑی وضاحت کی ضرورت نہیں بس اتنا بہت ہے کہ توفیق پسند حالت پرواز میں دانش کےعالیشان مظاہرے کرتے اور غیر توفیق پسند انہیں بھگتتے تھے
یہ ٹھکانہ زمان جعفری کے سفر حیات کے آخری دنوں تک آباد رہا ویسے توفیق پسندوں کی مرادیں منصور کریم کے ڈیرے پر بھی بھر آتی تھیں لیکن زمان جعفری کے ہاں ساری ترقی پسندی کے باوجود دودرجہ کے توفیق پسند تھے ایک بالٹی گروپ اور دوسرا مڈل کلاسیا
زمان جعفری کو ہم محبت و احترام سے لالہ زمان جعفری کہتے وہ تھے بھی نئی نسل کے ملتانیوں اور وسیبیوں کے لالہ ہی ضیا الحق کا مارشل لا لگنے کے بعد ہمارے محبوب دوست بیرسٹر تاج محمد لنگاہ مرحوم نے خورشید حسن میر کے ساتھ ملکر جو عوامی جمہوری پارٹی بنائی تھی اس کا پہلا ورکرز کنونشن لالہ زمان جعفری کی قیام گاہ پر ہی منعقد ہوا تھا


