پاکستاناہم خبریں

آپریشن سندور ناکامی: مودی کی خاموشی پر ملک گیر غم و غصہ، اپوزیشن میں سیاسی ہلچل

اگر وزیرِاعظم واقعی حقائق کا دفاع کرسکتے ہیں تو وہ واضح طور پر بتائیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات جھوٹ پر مبنی ہیں یا نہیں,راہول گاندھی

نئی دہلی: آپریشن سندور کی عبرتناک ناکامی کے بعد بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی خاموشی نے پورے ملک میں غم و غصے اور سیاسی ہلچل کو بھڑکا دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی عسکری، سفارتی اور سیاسی ذمہ داریوں پر شدید تنقید کی ہے اور مودی سرکار کی مبہم اور خاموش حکمتِ عملی کو عوامی غم و غصے کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔

اپوزیشن کا ردِ عمل: ‘بزدلانہ خاموشی’ اور سخت سوالات

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے وزیراعظم مودی کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کی خاموشی کو "بزدل اور بے وژن” طرزِ عمل قرار دیا۔ راہول گاندھی نے دعویٰ کیا کہ مودی میں ہمت نہیں کہ وہ امریکی صدر کے سامنے سچ کا سامنا کریں اور کہا کہ اگر وزیرِاعظم واقعی حقائق کا دفاع کرسکتے ہیں تو وہ واضح طور پر بتائیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات جھوٹ پر مبنی ہیں یا نہیں۔ راہول گاندھی نے یہ بھی کہا کہ "مودی اس حقیقت کو نہ تو مان سکتے ہیں اور نہ ہی جھٹلا سکتے ہیں کہ آپریشن سندور کو انہوں نے خود روکا” — یہ الزام حکومت کی پالیسی اور فیصلوں پر براہِ راست سوال اٹھاتا ہے۔

کانگریس کی رہنما سوپریا شرینیّت نے بھی مودی سرکار پر شدید تنقید کی اور کہا کہ امریکی صدر کے بیان کے مطابق سات بھارتی طیارے مار گرائے گئے ہیں، اور مودی کی خاموشی اس امر کی تصدیق ہے کہ وہ اس معاملے میں مشتاقس موقف اختیار کرنے سے گریزاں ہیں۔ اُن کے بقول، مودی کی جانب سے خوف و شرم کی کیفیت نے پورے بھارت کی عزت اور وقار کو مجروح کیا ہے۔

امریکی بیانات اور سفارتی تناؤ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان کے حق میں دیے گئے بیانات نے بھارت میں سیاسی دراڑیں اور تشویش کو مزید ہوا دی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے سوال اٹھایا ہے کہ مودی حکومت ان بیانات پر کیوں خاموش ہے اور کیا حکومت کا یہ غیر شفاف رویہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کے موقف کو نقصان پہنچائے گا؟ تجزیہ کاروں کے مطابق، کسی بھی بڑی عسکری ناکامی کے بعد خارجہ پالیسی اور سفارتی محاذ پر فوری اور واضح موقف اختیار کرنا ریاستی سالمیت اور عوامی اعتماد دونوں کے لیے ضروری ہوتا ہے — مگر موجودہ تنازع میں یہ کشمکش واضح حکمتِ عملی کی عدم موجودگی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

فوجی محاذ: ‘بنیان المرصوص’ اور پاکستان کی جوابی کارروائی

حکومتِ پاکستان کی طرف سے آپریشن ‘بنیان المرصوص’ کو بطور دفاعی اور جوابی کارروائی پیش کیا گیا ہے، جس پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی مسلح افواج نے بھارت کو ‘منہ توڑ’ جواب دیا اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کو مؤثر انداز میں یقینی بنایا۔ اس بیان میں زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کی سرحدیں ناقابلِ تسخیر ہیں اور کسی بھی جارحیت کا مؤثر جواب دیا جائے گا۔ ان بیانات نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی میں اضافہ کیا ہے اور علاقائی استحکام کے لئے تشویش کی فضا پیدا کر دی ہے۔

عوامی ردِ عمل اور میڈیا کا رویہ

مودی کی خاموشی اور اپوزیشن کی شدید تنقید نے سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا دونوں میں ایک زبردست مباحثہ کھڑا کیا ہے۔ کئی حلقے وزیراعظم کی قیادت پر سوالات اٹھا رہے ہیں—خاص طور پر وہ لوگ جو عسکری ناکامی کے فوری بعد قوم کو مطمئن کرنے کے لیے واضح تجاویز اور شفاف وضاحت کے مطالبے کرتے ہیں۔ دوسری جانب حکومت کے حمایتی حلقے کہتے ہیں کہ حساس قومی سیکورٹی امور میں خاموشی یا محتاط بیانات اکثر حکمتِ عملی کا حصہ ہوتے ہیں اور جلد بازی میں دی جانے والی معلومات نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

شفافیت، فرانزک حقائق اور آئینی ذمہ داریاں

ماہرینِ دفاع اور سابقہ سفارت کار تجویز کرتے ہیں کہ اس طرح کی ناکامی کے بعد شفاف تحقیقات، ذمہ دار فوجی کمانڈرز کی اکاؤنٹیبلیٹی، اور پارلیمانی نگرانی ناگزیر ہے۔ اس کے علاوہ، بین الاقوامی حوالوں اور اتحادیوں کے ساتھ مواصلات میں واضح اور یکساں پالیسی برقرار رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ غلط فہمیوں اور سفارتی نقصان سے بچا جا سکے۔

سیاسی منظرنامہ: آئندہ کے داؤ پیچ

اس واقعاتی سلسلے کا سیاسی اثر آئندہ انتخابات، حزبِ اختلاف کی حکمتِ عملی اور حکومتی پالیسی پر گہرا پڑے گا۔ اپوزیشن جماعتیں اس موقع کو حکومت کے خلاف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں، جبکہ وزیرِاعظم اور ان کی کابینہ ممکنہ طور پر دفاعی اور سفارتی محاذ دونوں پر مستحکم مؤقف اختیار کرنے کے دباؤ میں ہیں۔ یہ صورتِ حال حکومت کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ کس حد تک اطلاعات اور حقائق عوام کے ساتھ شیئر کرے گی اور کس حد تک معاملے کو سکیورٹی کلیئرنس کے تحت رکھے گی۔

حکومت کا آئندہ لائحہ عمل — متوقع اقدامات

اگرچہ فی الوقت سرکاری سطح پر روشن اور تفصیلی بیان موجود نہیں، ماہرین کا ماننا ہے کہ درج ذیل اقدامات متوقع ہیں:

  • فوجی کارروائیوں اور آپریشنز کی داخلی جانچ اور شفاف رپورٹنگ؛

  • بین الاقوامی سفارتی چینلز کے ذریعے حقائق کی وضاحت اور اتحادیوں سے رابطے؛

  • پارلیمانی کمیٹیوں کے ذریعے واقعہ کی تفتیش؛

  • عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے محدود اور منظم معلومات کی فراہمی؛

  • علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی پیش رفت اور تلاشِ حل کی کوششیں۔

نتیجہ: قومی حسِ ذمہ داری اور شفافیت کا تقاضا

آپریشن سندور کی ناکامی اور اس کے بعد وزیراعظم کی خاموشی نے بھارتی سیاسی منظرنامے میں ایک ایسا شگاف پیدا کیا ہے جو حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کے سوال کو جنم دے رہا ہے۔ اس کا حل شفافیت، قابلِِ اعتبار تفتیش، اور جرات مندانہ سیاسی قیادت میں مضمر ہے — ورنہ سیاسی غبار اور عوامی عدم اعتماد طویل عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔ اپوزیشن نے اس معاملے کو قومی اہمیت کے طور پر اٹھا دیا ہے اور توقع یہی کی جا رہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں سیاسی میدان میں سخت محاذآرائی، پارلیمانی بحثیں اور ممکنہ عوامی مظاہرے دیکھنے کو ملیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button