
امید پہ دنیا قائم ہے …….حیدرجاویدسید
یہ سطور لکھتے وقت دو خبروں پر نگاہ پڑی پہلی خبر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے مختلف الخیال سیاسی قائدین سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور ان سے صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر مشاورت کی یہ ایک اچھی پیش رفت ہے
کچھ دوست احباب اور قارین مسلسل پوچھ رہے ہیں کہ معروضی حالات اور ملکی سیاست کو نظرانداز کیوں کررہا ہوں ؟ عزیزو ! ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ہم لکھنے بولنے کیلئے کتنی آزادی محسوس کرتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے صبح و شام غزہ کی صورتحال پر کڑھنے والے سوڈان میں جنم لیتے المیوں پر چُپ ہیں کیوں اس لئے کہ غزہ میں اسرائیل جارح تھا اور سوڈان کے علاقے دار فور کے شہر الفاشر سمیت متعدد دوسرے شہروں اور علاقوں میں جو پیرا ملٹری فورسز قتل عام میں مصروف ہے اس کی پشت پناہی ایک مالدار خلیجی ریاست کررہی ہے
اس لئے پورا عالم اسلام منافقت بھری خاموشی اوڑھے سو رہا ہے ایسے میں ہم اور آپ بھی نیند پوری کرلیتے ہیں ، رہی ملکی سیاست اس پہ کیا لکھا جائے اچھے بھلے لوگ ڈالر کمانے کیلئے جو کر کہہ رہے ہیں اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں پھر بھی گاہے بگاہے عرض کرتا رہتا ہوں
آپ یہ سوال مت کیجے گا کہ دارفور کی المناک صورتحال کی اصل ذمہ دار خلیجی ریاست کا نام لکھنے سے میں گریز کیوں کیا ؟ میں ایڈیٹوریل پیج کے ذمہ داران کیلئے مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتا ویسے بھی میں اب عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں سامت یا بلھے شاہ ثانی بننے کے شوق کا انت ہوچکا رہی ملکی سیاست اور صحافت یہ دونوں سنجیدگی اور متانت بھرے تجزیوں کی بجائے چیخنے چلانے والوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں ہرطرف پاپولرازم کا دور دورہ ہے ویسے ہردور کا اپنا پاپولر ازم ہوتا ہے اس کے شور میں پورا سچ دب جاتا ہے ہمارے آپ کے سامنے جو ہورہا ہے اس کا تجزیہ کیجے جواب مل جائے گا
یہ سطور لکھتے وقت دو خبروں پر نگاہ پڑی پہلی خبر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے مختلف الخیال سیاسی قائدین سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور ان سے صوبے میں امن و امان کی صورت حال پر مشاورت کی یہ ایک اچھی پیش رفت ہے
ہم تو کب سے بلکہ ہمیشہ سے یہی کہہ لکھ رہے ہیں کہ سیاست بند گلی کا کھیل ہے نا دروازے بند کر کے بیٹھ رہنے کا سیاست بات چیت مکالمے اور برداشت سے آگے بڑھتی ہے ہمارے چار اور اب فقط سازشی تھیوریاں فروخت ہوتی ہیں
دسواں عجوبہ یہ ہے کہ انقلاب ڈالرز کمانے کا ذریعہ بن چکا ہے نا مزے کی بات مزید مزے کی بات یہ ہے کہ صبح انقلاب ( وہ جب بھی آئے ) ڈالروں کی کمائی جاری رہے گی خیر ڈالر خوروں کے منہ کو ڈالر لگ چکے اب وہ اس سے کم پر راضی نہیں ہوں گے
بہر حال سہیل آفریدی کے مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے رابطے ایک مثبت پیش رفت ہے یہ سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے کیونکہ سیاسی عمل کے حقیقی کردار سیاسی رہنما اور جماعتیں ہی ہیں
ہم دوسری خبر پر بات کرلیتے ہیں ہماری دانست میں جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پنجاب میں آئمہ مساجد کیلئے ماہانہ وظیفے کی حکومتی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کیلئے جو الفاظ استعمال کئے وہ نامناسب ہیں مذہبی رہنماوں پر اخلاقیات کی ترویج کی تب زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے جب وہ اس امر کے دعویدار ہوں کہ سماجی اخلاقیات کے بانی مذاہب عالم ہیں اور ہم انبیاؑ کے وارث ہیں
گو ایک طالبعلم کی حیثیت سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سماجی اخلاقیات سماج کے شعوری ارتقا سے جنم لیتے ہیں خیر یہ سنجیدہ مکالمے کی باتیں ہیں فی الوقت یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے مذہبی رہنماوں کو گفتگو خطابات اور بیانات میں الفاظ کے چناو میں احتیاط برتنی چاہئے
گزشتہ دودن سے تحریک انصاف کے بعض ان سابق رہنماوں جنہوں نے 9 مئی کے بعد پارٹی سے لاتعلقی ظاہر کی تھی کی لاہور کے ایک ہسپتال میں زیر علاج مخدوم شاہ محمود قریشی اور کوٹ لکھپت جیل میں قید بعض رہنماوں سے ملاقاتوں پر ایک طوفان برپا ہے
ڈالری گروپ ان سابق انصافی رہنماوں کے لتے ہی نہیں لے رہا بلکہ ڈھولک کی تیز لے میں جو کہہ رہا ہے وہ یہاں لکھنے میں اخلاق مانع ہے تحریک انصاف کے بیرون ملک مقیم حامی یوٹیوبرز ہوں یا مقامی طور پر دستاب ہردو کا خیال ہے کہ پاکستان کو ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے جو ہر چیز کو تہس نہس کرکے عمران خان کو جیل سے چھڑائے اور اقتدار کا تاج ان کے سر پر رکھ دے اور انقلابی عدالتیں غداروں کو چن چن کر سزائیں سنائیں یہ انقلابی ہر اس شخص کو بے شرمی سے گالی دیتے ہیں جو یہ کہے کہ سیاسی جماعت کو سیاسی طرزعمل اختیار کرنا چاہئے
تحریک انصاف کے بعض سابق رہنما جن میں فواد حسین چوہدری بھی شامل ہیں کہتے ہیں کہ حالات کو معمول پر لانے اور عمران خان کی رہائی کیلئے تمام سیاسی قوتوں سے بات چیت کرنا چاہئے بادی النظر میں یہی بات درست ہے سیاسی عمل میں آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ دوست زیادہ ہوں اور دشمن کم اس پر دو آرا ہرگز نہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے رہنماوں و ہمدردوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں اور ہو بھی رہی ہیں ان زیادتیوں کو گالم گلوچ سے نہیں بات چیت سے روکا جاسکتا ہے بات چیت کون کرے گا ؟
یہ بذات خود سوال ہے کیونکہ یہاں جو بھی سیاسی قوتوں سے بات چیت کی خواہش ظاہر کرتا ہے اس پر گالیوں اور دشنام طرازی کی عالمگیر برسات ہونے لگتی ہے
حرف آخر یہ ہے کہ سب اچھا ہرگز نہیں ہے سیاسی عدم استحکام ہے اور معاشی صورتحال بھی ابتر ہے مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن نے عام شہری کی زندگی اجیرن بنا دی ہے صاحبانِ اقتدار کی تو بس ” آنیا جانیا ” ہیں اب آنیوں جانیوں سے مسائل حل ہونے کے نہیں
مسائل کے حل کی واحد صورت سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہے اس کیلئے حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو ذاتی تعصب اور نفرت سے نجات حاصل کرنا ہوگی لیکن کیا سیاستدانوں کی دستیاب نسل میں اس کیلئے حوصلہ موجود ہے ؟
ہم اور آپ اس سوال کو نظر انداز نہیں کرسکتے ہماری رائے میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام کا دروازہ کھلے گا ورنہ قرضے دینے والے عالمی اداروں اور ممالک کی بلیک میلنگ جاری رہے گی
یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے لوگوں کے خلاف مقدمات کا ازسرنو جائزہ لیا جانا چاہئے ایک ایک شخص کو ایک جیسے تین سے چار مقدمات میں جو مختلف شہروں میں درج ہوئے ہوں سزائیں دینا نظام انصاف پر سیاہ دھبے ہیں ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ صاحبان اقتدار و حزب اختلاف کے رہنما اپنی اپنی انا کے خولوں سے باہر نکل کر عوام اور ملک کے لئے سوچیں امید پہ دنیا قائم ہے
معاف کیجے گا حرف آخر کی باتیں ہو چکیں مگر مزید ایک دو باتیں بہت ضروری ہیں پہلی یہ کہ آزاد جموں و کشمیر میں تبدیلی کے لئے جوہورہا ہے وہ درست نہیں ہے پیپلز پارٹی کو لوٹے بھرتی کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا مناسب یہ ہوتا کہ کسی قسم کی تبدیلی کی بجائے نئے ریاستی انتخابات کی طرف بڑھا جاتا تاکہ عوام اپنی قیادت کا انتخاب کرتے
نیز یہ کہ اس سے پہلے مہاجرین کی نشستوں والے مسلہ کا حل تلاش کیا جانا چاہئے جن مہاجر ارکان اسمبلی بارے دستاویزاتی ثبوت سامنے آچکے کہ انہوں نے جعلسازی سے اندراج کروایا انہیں نہ صرف نااہل کیا جانا چاہئے بلکہ حاصل کردہ مراعات وغیرہ بھی ان سے وصول کی جانی چاہئیں
دوسری بات یہ ہے کہ کالعدم فرقہ پرست تنظیموں کو قانون کی طاقت سے سرگرمیوں سے روکنا ہوگا کیونکہ ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے نہ صرف مسائل پیدا ہورہے ہیں بلکہ ان کے بعض رہنماوں کی زہریلی تقاریر سے نفرتوں کی نئی فصل کاشت ہورہی ہے یہ ملک اور اس کے باسی پہلے ہی فرقہ وارانہ نفرتوں کا بہت زیادہ خمیازہ بھگت چکے مناسب ہوگا کہ حکومت اور قانون دونوں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں


