یورپاہم خبریں

جرمنی میں آئین کے لیے پرخطر مسلم گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن

تین مختلف مسلم گروپوں کے خلاف پولیس نے مختلف جرمن شہروں میں قریب بیس مقامات پر چھاہے مارے

مقبول ملک ، ڈی پی اے اور اے پی کے ساتھ۔ 

وفاقی جرمن حکومت نے ایک ایسے مسلم گروپ کو ممنوع قرار دے دیا ہے، جس پر بنیادی انسانی حقوق اور ملک کی جمہوری اقدار کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں دو دیگر مسلم گروپوں کے خلاف بھی چھاپے مارے گئے ہیں۔

جرمن وزارت داخلہ کا موقف

برلن میں وفاقی جرمن وزارت داخلہ نے بتایا کہ ‘مسلم انٹرایکٹیو‘ نامی گروپ پر لگائی گئی پابندی کی وجہ اس کی یہ پرخطر سوچ بھی بنی کہ وہ یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک میں ایک مذہب کے طور پر اسلام کی ایک مخصوص پہلو سے ترویج کے لیے کام کر رہا تھا۔

یہ سماجی اور نظریاتی ترویج اس طرح کی جا رہی تھی کہ معاشرتی نظم و ضبط کا واحد ماڈل اسلام ہے اور جرمنی میں مسلم برادری کی انفرادی اور اجتماعی روزمرہ زندگی میں ریاستی قوانین کے بجائے اسلامی قوانین کو ترجیح دی جانا چاہیے، خاص طور پر اس حوالے سے بھی کہ خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔

برلن میں ایک کئی منزلہ رہائشی عمارت کے سامنے کھڑی پولیس کی ایک گاڑی
تین مختلف مسلم گروپوں کے خلاف پولیس نے مختلف جرمن شہروں میں قریب بیس مقامات پر چھاہے مارےتصویر: Manuel Genolet/dpa/picture alliance

جرمن وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ نے برلن میں کہا، ”ہم ایسے ہر فرد کے خلاف قانون کی پوری طاقت کے ساتھ کارروائی کریں گے، جو جرمنی کی سڑکوں پر جارحانہ انداز میں بطور نظام خلافت کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہو، ناقابل برداشت انداز میں یہودیوں اور اسرئیلی ریاست کے خلاف نفرت انگیزی کرتا ہو، اور خواتین اور صنفی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہو۔‘‘

دو دیگر مسلم گروپوں کے خلاف بھی تحقیقات

جرمن وزارت داخلہ کے مطابق اس کے حکام ملک میں دو دیگر مسلم گروپوں کے خلاف بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ان گروپوں کے نام ‘جنریشن اسلام‘ اور ‘ریئلیٹی اسلام‘ بتائے گئے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ نے کہا، ”ہم اس بات کی کبھی اجازت نہیں دیں گے کہ ‘مسلم انٹرایکٹیو‘ جیسی تنظیمیں اپنے اندر پائی جانے والی نفرت کی بنیاد پر ہمارے آزاد معاشرے کو نیچا دکھا دیں، ہماری جمہوریت کو ناپسند کریں اور ہمارے ملک پر اس کے اندر سے حملہ کریں۔‘‘

گزشتہ برس مئی میں ہیمبرگ میں ’مسلم انٹرایکٹیو‘ کی طرف سے اہتمام کردہ ایک احتجاجی مظاہرے کی تصویر
گزشتہ برس مئی میں ہیمبرگ میں ’مسلم انٹرایکٹیو‘ کی طرف سے اہتمام کردہ ایک احتجاجی مظاہرے کی تصویرتصویر: Giordano Stolley/ZUMA/picture alliance

اسی دوران وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ مسلم گروپ ”خاص طور پر صنفی مساوات، آزادانہ جنسی رجحان اور کسی بھی فرد کی اپنے لیے منتخب کردہ ذاتی صنفی شناخت کا مخالف ہے۔‘‘

وزارتی بیان کے مطابق اس گروپ کا ”یہ رویہ ایسی عدم برداشت کا مظہر ہے، جو جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق سے براہ راست متصادم ہے۔‘‘

متعدد جرمن شہروں میں چھاپے

جرمن حکام کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ملکی اداروں کے ارکان نے بدھ پانچ نومبر کو مختلف شہروں میں دو دیگر مسلم گروپوں کے خلاف بھی چھاپے مارے۔

ہیمبرگ میں مارے گئے چھاپوں میں سے ایک کے دوران ایک پولیس اہلکار ایک گاڑی کی ڈگی کی تلاشی لیتے ہوئے
ہیمبرگ میں مارے گئے چھاپوں میں سے ایک کے دوران ایک پولیس اہلکار ایک گاڑی کی ڈگی کی تلاشی لیتے ہوئےتصویر: Marcus Brandt/dpa/picture alliance

اس دوران شمالی شہر ہیمبرگ میں سات مختلف مقامات کی تلاشی لی گئی جبکہ وفاقی دارالحکومت برلن اور وسطی جرمن صوبے ہیسے میں بھی 12 مقامات پر چھاپے مار کر تلاشیاں لی گئیں۔

حکام کے مطابق ‘مسلم انٹرایکٹیو‘ نامی گروپ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ذہن سازی کر کے ”ایسے مستقل آئین دشمن تیار کرنا چاہتا تھا، جو جرمنی میں آئینی نظم و ضبط کو مسلسل خطرات کا شکار بنا دیں۔‘‘

دریں اثنا ‘مسلم انٹرایکٹیو‘ کی آن لائن موجودگی بھی بدھ کے روز بظاہر آف لائن کر دی گئی، جس کے بعد اس تک رسائی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ اب کالعدم قرار دے دیے گئے اس مسلم گروپ سے اس کا موقف جاننے کے لیے کوئی رابطہ بھی نہ ہو سکا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button