
عراقی الیکشن، فرقہ وارانہ کشیدگی اور سابق وزیر اعظم المالکی
عراقی ووٹروں کا سابق وزیر اعظم نوری المالکی کی اس دور کی حکومت سے عدم اطمینان آج تک ختم نہیں ہوا۔
مقبول ملک ، روئٹرز کے ساتھ۔
اس بارے میں بغداد سے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ نوری المالکی کو اپنے خلاف برسوں سے ان عوامی الزامات کا سامنا ہے کہ انہوں نے ماضی میں نہ صرف عراقی معاشرے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی، بلکہ وہ قریب ایک دہائی قبل دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش پر قابو پانے میں بھی اس حد تک ناکام رہے تھے کہ داعش کے جنگجو عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض ہو گئے تھے۔
تب داعش کے جنگجوؤں نے عراق کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے وسیع تر علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور وہاں اپنی ایک نام نہاد خلافت کے قیام کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ داعش کو بعد کے برسوں میں کافی حد تک شکست ہو گئی تھی اور اس کی قائم کردہ ‘خلافت‘ بھی ختم ہو گئی تھی۔
لیکن اس حوالے سے عراقی ووٹروں کا سابق وزیر اعظم نوری المالکی کی اس دور کی حکومت سے عدم اطمینان آج تک ختم نہیں ہوا۔

بااثر شیعہ اتحاد کے سربراہ المالکی
نوری المالکی اس وقت عراق میں ایک ایسے بااثر شیعہ مسلم اتحاد کے سربراہ ہیں، جس کا عربی میں نام ‘ائتلاف دولة القانون‘ یا اتحاد برائے قانونی ریاست ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس حد تک سیاسی اہمیت اور اثر و رسوخ کے حامل ہیں، کہ وہ اس فیصلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں کہ 11 نومبر کے قومی انتخابات کے بعد عراق کا اگلا وزیر اعظم کون ہو گا۔
اس وقت المالکی کی عمر 75 برس ہے اور انہیں 2014ء میں وزیر اعظم کے طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑ گیا تھا، کئی مخالفین اور ناقدین کے ایک ایسے غیر معمولی گروپ کے دباؤ کے نتیجے میں، جس میں بیرون ملک سے امریکہ اور ایران بھی شامل تھے اور اندرون ملک سے عراق کے سنی سیاسی رہنما اور سرکردہ ترین شیعہ مذہبی شخصیات بھی۔
نوری المالکی کے وزارت عظمیٰ سے مجبوراﹰ دستبردار ہو جانے کی وجہ 2014ء میں مسلم شدت پسندوں کی دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کی مسلسل پیش قدمی اور اسے بڑی تیزی سے ملنے والی علاقائی کامیابیاں بنی تھیں۔

فرقہ وارانہ تقسیم کا باعث بننے والا عرصہ اقتدار
نوری المالکی کے بارے میں برسوں پرانے عوامی الزامات کی صورت میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں عراق میں شیعہ اکثریتی آبادی اور سنی اقلیتی آبادی کے مابین فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دی تھی، جب کہ ملک میں مستقل بے روزگاری، پبلک سیکٹر کی خراب کارکردگی اور کرپشن جیسے سماجی مسائل کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا تھا۔
کئی تجزیہ کاروں کے مطابق اس عوامی تنقید اور عدم اطمینان کے باوجود نوری المالکی، جنہیں ایک شاطر سیاسی کارساز سمجھا جاتا ہے، بعد کے برسوں میں اپنی سیاسی اہمیت کو دوبارہ یقینی بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے ایسا خاموشی سے مختلف مسلح ملیشیا گروپوں کے ساتھ تعلقات کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ میں اضافے اور سکیورٹی فورسز اور ملکی عدلیہ سے اپنے روابط کی مدد سے کیا۔
ایسا اس لیے بھی ممکن ہوا کہ المالکی کی سیاسی حیثیت کی جڑیں عشروں کی ان مصروفیات میں ہیں، جن میں انہوں نے سابق صدر صدام حسین کے خود پسندانہ دور اقتدار کی مخالفت کی اور طویل عرصہ جلاوطنی میں بھی گزارا، جس نے ان کے نظریاتی موقف اور ارادوں کو مزید مضبوط کر دیا۔

صدام کی سزائے موت کے حکم نامے پر دستخط
نوری المالکی صدام دور میں کالعدم قرار دے دی گئی شیعہ سیاسی جماعت حزب الدعوة الاسلامیہ میں اپنے کردار کی وجہ سے غیر حاضری میں سنائی گئی سزائے موت کے حقدار بھی ٹھہرائے گئے تھے۔ انہوں نے اپنی تقریباﹰ 25 سالہ جلاوطنی کا زیادہ تر عرصہ شام اور ایران میں گزارا، جہاں سے وہ صدام کی آمریت کے زوال کے لیے کوشاں رہے تھے۔
صدام حسین کے زوال کے بعد بہت سے دیگر جلاوطن عراقی رہنماؤں کی طرح المالکی بھی واپس عراق چلے گئے تھے۔ تب عراق میں سنی صدر صدام حسین کا وہ دور ختم ہو چکا تھا، جس دوران شیعہ اکثریت اور کرد آبادی کو بدترین جبر کا سامنا رہا تھا۔
صدام حسین کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے بطور وزیر اعظم سرخ روشنائی سے دستخط المالکی ہی نے کیے تھے، جس کے بعد صدام حسین کو تختہ دار پر لٹکا کر ان کی زندگی اور عراقی سیاست کے ایک پورے عہد دونوں کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔

المالکی کی ایران سے دوستی
نوری المالکی شیعہ سیاسی طاقت ایران کے دوست ہیں، اور انہوں نے عراقی سیاست میں اپنا زندگی بھر کا یہ مقصد حاصل کر لیا تھا کہ ملک میں اقتدار سنیوں سے واپس لے لیا جائے۔ لیکن اس سیاستدان کی عراقی سیاست پر شیعوں کے دوبارہ غلبے کو یقینی بنانے کی یہی مہم ان کے زوال کی وجہ بھی بنی تھی۔
عراقی سنی سیاسی رہنما المالکی پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے شیعہ مسلح ملیشیا گروپوں کو قابو میں لانے کے لیے ضروری حد تک درکار کریک ڈاؤن نہیں کیا تھا۔ اس کے برعکس ان کی توجہ ان عراقی صوبوں میں طاقت کا مظاہرے پر مرکوز رہی تھی، جہاں آبادی میں سنی مسلمانوں کی اکثریت تھی۔
2006ء سے لے کر 2014ء تک عراقی وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہنے والے نوری المالکی اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کی سیاست کا کوئی پہلو کبھی فرقہ وارانہ بھی رہا ہے۔
اس پورے سیاسی پس منظر میں 1950ء میں پیدا ہونے والے المالکی بہت بارسوخ شیعہ اتحاد دولة القانون کے سربراہ کے طور پر اگلے ہفتے ہونے والے عراقی پارلیمانی انتخابات کے نتائج سامنے آ جانے کے بعد بھی یہ طے کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کہ بغداد میں اگلی ملکی حکومت کی قیادت کون کرے گا۔



