
شفقت اللہ مشتاق اور قدرت اللہ شہاب ۔۔ اپنے عہد کے ایک جیسے چراغ۔۔!!پیر مشتاق رضوی
شہاب صاحب نے یہ ثابت کیا کہ اقتدار اگر نیتِ خدمت کے ساتھ ہو تو عبادت بن جاتا ہے۔ان کی تحریروں میں روحانیت، عاجزی، اور انسان دوستی کی خوشبو آج بھی زندہ ہے۔
اردو ادب اور پاکستان کی انتظامی تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو محض عہدوں سے نہیں، بلکہ کردار اور روحانیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انہی روشن ناموں میں ایک ہیں قدرت اللہ شہاب، اور آج کے دور میں انہی کے رنگ میں ڈھلے ہوئے ایک اور درویش صفت افسر شفقت اللہ مشتاق، ڈپٹی کمشنر راجن پور ہیں ان انداز ٹکلم میں ایسا لگتا ہے جیسے قدرت اللہ شہاب کا آواگون ہو ویسا ہی قلندارانہ مزاج اور عام فہم فکری گفٹگو سننے والے کو متاثر کرتی ہے شفقت اللہ مشتاق کی صوفیانہ طرز شاعری اور عصری تقاضوں سے ھم آھنگ تحریریں ان کی ادبی شناخت کو منفرد بناتی ہے
اگر شہاب صاحب نے قلم کے ذریعے بیوروکریسی کو روحانی رنگ دیا، تو شفقت اللہ مشتاق صاحب اپنے عمل سے اس رنگ کو زندہ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے شقفت اللہ ،قدرت اللہ شہاب کی پیروی کرتے نظرآتے ہیں جب راقم شفقت اللہ مشتاق سے پہلی بار ھمکلام ہوئے تو دل نے گواہی دی کہ شفقت اللہ مشتاق یقینا” قدرت اللہ شہاب ٹانی ہیں قدرت اللہ شہاب کے ہاں روح اور قلم کا امتزاج ملتاہے قدرت اللہ شہاب کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک ایسا بیوروکریٹ آتا ہے جو صرف حکومتی نظام کا پرزہ نہیں تھا، بلکہ روح اور ضمیر کا مسافر تھا۔ بعنیہ شفقت اللہ مشتاق کی زندگی کی جھلکیاں شہاب نامہ میں نظر آتی ہیں جہاں ایک افسر شاہی کے ایوان ہیں، اور دوسری طرف اللہ کے فقیر بابا جی کی خانقاہ اور درویشانہ رنگ جھلکتا ہے
شہاب صاحب نے یہ ثابت کیا کہ اقتدار اگر نیتِ خدمت کے ساتھ ہو تو عبادت بن جاتا ہے۔ان کی تحریروں میں روحانیت، عاجزی، اور انسان دوستی کی خوشبو آج بھی زندہ ہے۔
شفقت اللہ مشتاق بلاشبہ شہاب کی روایت کا نیا چہرہ ہے
آج کے دور میں جب بیورو کریسی زیادہ تر طاقت اور ظاہری اختیار کے گرد گھومتی نظر آتی ہے، شفقت اللہ مشتاق جیسے افسر امید کی کرن بن کر سامنے آئے ہیں۔ان کا طرزِ عمل عوامی، نرم دل، اور انسان دوست ہے۔ راجن پور جیسے پسماندہ ضلع میں وہ محض انتظامی افسر نہیں، بلکہ ایک خدمت گزار اور انسان دوست کے طور پر جانے جاتے ہیں۔وہ دفاتر میں نہیں، عوام کے درمیان، دھوپ اور گرد میں نظر آتے ہیں — مسائل سنتے ہیں، حل کرتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر دل جیت لیتے ہیں۔ شفقت اللہ مشتاق روحانیت اور کردار ایک متنوع حسین متزاج ہے اور نابغہ روزگار ہی نہیں بلکہ ھمہ جہت شخصیت ہیں قدرت اللہ شہاب کے ہاں روحانیت ایک باطنی تجربہ تھی؛ شفقت اللہ مشتاق کے ہاں یہ عملی طرزِ زندگی ہے۔دونوں کی زندگیوں میں ایک مشترکہ پہلو نمایاں ہے خودداری اور عاجزی کا حسین امتزاج ہےشہاب صاحب نے بابا جی کی صحبت سے "باطنی سچائی” پائی، جبکہ شفقت اللہ مشتاق عوام کی خدمت میں وہی سکون تلاش کرتے ہیں جو ایک درویش ذکر میں پاتا ہے۔
بیوروکریسی میں انسانیت علمبردار شہاب صاحب نے لکھا تھا: "اختیار انسان کو بڑا نہیں کرتا، نیت اسے چھوٹا یا بڑا بناتی ہے۔” یہی فکرو فلسفہ شفقت اللہ مشتاق کے طرزِ عمل میں جھلکتا ہے۔وہ اپنی پوزیشن کو طاقت نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک افسر کا اصل کام حکم دینا نہیں، دل جیتنا ہے۔قدرت اللہ شہاب نے جو فکری چراغ جلایا تھا، شفقت اللہ مشتاق آج کے دور میں اُسے عملی روشنی میں بدل رہے ہیں۔دونوں یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگر نیت خالص ہو تو بیوروکریسی بھی عبادت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔
شہاب صاحب کے قلم سے جو خوشبو نکلی تھی، وہ آج شفقت اللہ مشتاق کے کردار سے مہک رہی ہے اور یہ خوشبو آنے والی نسلوں کو بتاتی رہے گی کہ کردار، قلم سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔


