کالمزحیدر جاوید سید

یہ جو ملتان سے محبت ہے ( قسط 6)……حیدر جاوید سید

" ایسے ہی احکامات چند دیگر ملتانی دوستوں کے ہیں زندگی اور صحت کے ساتھ کی شرط ہے حکم دوستاں کی تعمیل ہوگی

ملتان اور ملتانیوں سے جُڑی یادوں کا سلسلہ ہائے تحریر جاری ہے گزشتہ سے پیوستہ کالم پر ایک پیغام موصول ہوا کہ ملتان کے محنت کش رہنماوں کے تذکرے میں کچھ شخصیات کا ذکر نہیں کیا مثلاً مزدور رہنما ملک ریاض اور اختر غنی کی خدمات کا احاطہ ، ضروری ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل اس امر کی وضاحت کردوں کہ میں ملتان سے اپنے تعلق شہراور شہرداروں سے وابستہ یادیں رقم کررہا ہوں تاریخ ملتان نہیں لکھ رہا
یادوں کی زنبیل میں جو کچھ اور جتنا محفوظ ہے وہ ملتان کی سیاسی سماجی تاریخ کا حصہ ضرور ہے کامل تاریخ نہیں سادہ الفاظ میں یہ کے جو لکھ رہاں ہوں وہ خود بیتی ہے آنکھوں دیکھا ہے اور کسی نہ کسی طور کسی معاملے کا ایک کردار ہونا ہے
مثلاً لالہ سید زمان جعفری کے گھر منعقد ہوئے عوامی جمہوری پارٹی کے ورکرز کنونشن اور مشاورتی اجلاس میں زمان جعفری کی دعوت پر خالد گوپانگ اور میں کراچی سے آئے تھے خالد مہمانوں کیلئے بک کروائے گئے ہوٹل میں ٹھہرے میں اپنے بلوچ لالہ عمر علی خان بلوچ کے رائٹرز کالونی والے چوبارے پر
اسی طرح جب محمد حنیف رامے کی جانب سے پاکستان مساوات پارٹی کیلئے ملتان میں منعقدہ ورکرز کنونشن سے پہلے ہونے والے مشاورتی اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو یہ شرکت بھی ذاتی تعلق کی بنا پر ہوئی جیسا کہ بیرسٹر تاج محمد لنگاہ اور لالہ سید زمان جعفری کے حکم کی تعمیل واجب تھی
ہم جیسے لوگوں نے زندگی دوستوں کے احکامات پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے بسر کی
بارِ دیگر عرض یہ یہ ملتان اور ملتانیوں کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں اور ذاتی تعلقوں پر مبنی میری یاد داشتوں کو تحریر کی صورت دینے کا سلسلہ ہے کوئی پسندوناپسند ہرگز نہیں جو زندہ و مرحوم بزرگ اور دوست ان کا حصہ رہے اور ہیں ان کا ہی ذکر ہوگا
اسی طرح برادرعزیز محمد عامر حسینی کا شکرگزار ہوں کہ اب تک لکھی اقساط میں سے بعض کو اپنے تحریری نوٹ کے ساتھ شیئر کرچکے اور دو اقساط پر انہوں نے الگ سے مفصل تحریر لکھ کر شیئر کی اس سے طالبعلم کو مزید لکھنے کی ترغیب ملی برادرعزیز شاکر حسین شاکر کا ٹیلیفونک حکم صادر ہوا ” شاہ جی یہ سلسلہ دیگر سلسلوں کی طرح درمیان میں چھوڑ کر نئے میدانوں کی سمت نہیں جانا بلکہ اسے مکمل کرنا ہے ” ایسے ہی احکامات چند دیگر ملتانی دوستوں کے ہیں زندگی اور صحت کے ساتھ کی شرط ہے حکم دوستاں کی تعمیل ہوگی
ہم آگے بڑھتے ہیں جب تک صحت معمول کے مطابق رہی اور جیب نے اجازت دی ملتان اور وسیب سے آنے والی ایک آواز پر ہم جہاں بھی ہوئے بیگ اٹھایا اور منہ طرف وسیب شریف دے چل دیئے
دل اب بھی ہر آواز پر لبیک کہنے کو مچلتا ہے لیکن مسائل ہیں اور یہ نوے فیصد صحت کے ہیں اس کے باوجود جب بھی حالات اجازت دیں ملتان میں چنددن گزار لیتا ہوں
کچھ گھرداری کی ذمہ داریاں اور مسائل نہ ہوں تو ایک لمحے کی تاخیر کیئے بغیر سامان اٹھاوں اور جنم شہر میں جینے بسنے کی حسرت پوری کروں دل یہی چاہتا ہے کہ ہم ہوں اور ملتان مزدوری سے جو وقت بچ رہے شہر میں خوب گھوموں دوستوں سے ملوں بہنوں کی قدم بوسی کروں امڑی اور باباجان سمیت پیاروں تربتوں پر حاضری دوں لیکن کب ایسا ہوا کہ دل کی ساری باتیں ترتیب سے پوری ہوں
چند دوست اور عزیز کہتے ہیں شاہ جی بیٹی امریکہ میں پڑھتی اور ملازمت کرتی ہے بس دو نفر ( میاں بیوی ) ہو لاہور سے بہتر ہے ملتان میں آن بسو
ادھر اہلیہ محترمہ ایک آدھ یا چنددن کے وقفے سے اردو میں کلاس لیتے ہوئے کہتی ہیں ” حیدر جاوید آپ کے دوست ملنے آجاتے ہیں یا دوستوں کی محفل میں شرکت کیلئے لے جاتے ہیں گھر پر ہوتے ہیں تو لائبریری میں بیٹھے رہتے ہیں میرا کون ہے لاہور میں بیٹی کی تعلیم اور آپ کی ملازمت کی وجہ سے لاہور آئی تھی بیٹی امریکہ چلی گئی آپ گھر سے کام کرکے بھیجتے ہیں واپس شیخوپورہ چلیں ” ان کی بات بہت حد تک درست ہے لیکن حیلوں بہانوں اور وعدوں پر ٹال دیتا ہوں
لاہور میں قیام کرنے کے فوائد کچھ نہ کچھ بہرطور ہیں لگی بندھی قلم مزدوری کے علاوہ کچھ کام مل جاتا ہے زندگی سہل ہوجاتی ہے
زندگی کو کچھ نہ کچھ سہل بنائے رکھنے کیلئے لاکھ جتن کرنا پڑتے ہیں یہ معاملے ہمارے چار اور جیتے بستے سب لوگوں کے ساتھ ہیں ہم کوئی الگ سیارے کی مخلوق تھوڑا ہی ہیں کہ کچھ مختلف ہو
معاف کیجے گا ملتان اور ملتانیوں کی باتیں کرتے کرتے بات دوسری طرف نکل گئی ملتان ایک شہر ہے جہانِ عالم میں لیکن ہمارے لئے ملتان ہی کُل جہان ہے ملتان کو ہمہ وقت یاد کرتا ہوں بھولوں بھی کیوں تعارف کا یہی مستند حوالہ ہے رزق سے بندھی ہجرتوں نے شہر شہر نا سہی چند شہر ضرور گھمائے
کراچی لاہور پشاور اور راولپنڈی کچھ برس جنم شہر ملتان میں اور دوہزار پندرہ سے پھر لاہور میں ہوں درمیان میں چھ سات ماہ کے لئے ملتان میں پڑاو ڈالا تھا جب ہمارے دوستوں نے
روزنامہ ” بدلتازمانہ ” ملتان کی اشاعت کا آغاز کیا تھا اب کئی برسوں سے گھر تک محدود ہوں کتابیں پڑھتا ہوں روزی روٹی کیلئے مزدوری سوشل میڈیا پر کچھ وقت بیتاتا ہوں لیکن ان سارے لمحوں میں ملتان دل و دماغ میں کہیں آرام کرتا ہے جیسے فراغت ملتی ہے ملتان انگڑائی لے کر بیدار ہوتا ہے اور یادوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے کبھی کبھی ملتان کی برکھا رُت یادوں کے درمیان برادر بزرگ شہید سید محسن نقوی کا یہ شعر دستک دینے لگتا ہے
محسن اپنی موت کا ماتم کیا ہوگا
بین کرے گی رات اور اُداسی رو لے گی
خیر ماحول کو بہتر بناتے ہیں کچھ اور باتیں کرتے ہیں ایک سے زائد بار عرض کرچکا کہ ایک طویل عرصے تک جب بھی ملتان آنا ہوتا میں قیام عمر علی خان بلوچ کے رائٹرز کالونی والے چوبارے پر رہتا عمر علی خان بلوچ میں انہیں محبت و احترام سے ہمیشہ بلوچ لالہ کہہ کر بلاتا
پہلے ہمارے بھیا ابو کے دوست تھے پھر ہمارے دوست بن گئے ہمارے باباجان سے بھی ان کی خوب نبھتی تھی عزیز نیازی عمر علی خان بلوچ اور حکیم محمود خان غوری یہ ہمارے وہ تین دوست اور پیارے تھے جنکی کبھی کوئی بات کسی حال میں ہم نے نہیں ٹالی یہی وجہ ہے کہ ہمارے والد بزرگوار جب اپنی سعودی عرب والی ملازمت سے چھٹیوں پر ملتان آتے تو انہیں ان تین دوستوں سے ہی ہمارے بارے میں تازہ ترین معلومات ملتیں کبھی انہیں ہم سے کوئی شکایت ہوتی جوکہ ہمیشہ رہیں تو وہ ہمارے ان تینوں دوستوں سے باری باری ملتے اور شکایات کا دفتر کھول بیٹھتے انہیں کامل یقین تھا کہ ان کی بات سننے کے بعد یہ تینوں ہمارے دستیاب ہوتے ہی ہماری کلاس لیں گے ان کا یہ یقین کبھی ٹوٹنے نہیں پایا
عمر علی خان بلوچ کے دوستوں اور محبوں کا حلقہ گو بہت وسیع تھا وہ دوستیاں نبھانے کے فن میں یکتا بھی تھے البتہ کچھ دوست ایسے تھے جن سے ان کا ذاتی اور سماجی تعلق دمِ آخر تک برقرار رہا وہ انجمن سازی ( نت نئی تنظیمیں بنانے ) میں یکتا تھے سرائیکی اسٹوڈنٹس فیڈریشن سرائیکی ادبی تحریک اور دوسری کئی ادبی و سماجی تنظیموں کے بانی تھے
پہلی تنظیم سرائیکی اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی کچھ عرصہ عملی سیاست میں نیپ کی جگہ بننے والی این ڈی پی میں بھی رہے
بعد کے برسوں میں عمر علی خان بلوچ راشد حیدر سیال اور ہم نے ملکر سرائیکی نیشنل پارٹی بنائی اس جماعت کا منشور ہمارے ایک اور قوم پرست دوست معروف صحافی و دانشور ارشاد احمد امین نے تحریر کیا تھا یہ سال 1986 کی بات ہے
کچھ عرصے بعد کچھ اور دوستوں جنکی قیادت عبدالمجید کانجو کررہے تھے نے اسی نام سے پارٹی بنالی تو کچھ تلخی ہوگئی اس مرحلے پر عمر علی خان بلوچ اور ارشاد احمد امین نے مداخلت کی ان کا کہنا تھا یار تم لوگوں نے کونسا کُل وقتی سیاست کرنا ہے اور وسیب میں رہنا ہے ہم صحافت کررہے ہیں یہی وسیلہ رزق ہے اس پر کانجو صاحب مرحوم اور ہمارے دوستوں کے درمیان پیدا ہوئی تلخی ختم ہوگئی کانجو صاحب بڑے وضعدار اور ترقی پسند خیالات رکھنے والی شخصیت تھے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button