
یومِ اقبالؒ اور عالمی یومِ اردو کے موقع پر جامعۃ العروۃ الوثقى لاہور میں قومی اردو کانفرنس — "اردو قومی زبان، قومی تشخص، قومی پہچان”
قیامِ پاکستان کے دن سے ہی یہ مملکت ایک نظریے اور فکری تشخص پر قائم تھی، جسے علامہ اقبالؒ نے "خودی" سے تعبیر کیا۔
انصار ذاہد-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
عالمی یومِ اردو اور شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے یومِ ولادت کے موقع پر پروفیشنلز آف تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ ﷺ کے زیرِ اہتمام جامعۃ العروۃ الوثقى لاہور میں ایک عظیم الشان قومی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس کا مرکزی عنوان تھا:
"اردو — قومی زبان، قومی تشخص، قومی پہچان”۔
اس کانفرنس میں ملک کی ممتاز علمی، فکری، ادبی، لسانی اور صحافتی شخصیات نے شرکت کی۔
کانفرنس کی صدارت سربراہ تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ ﷺ علامہ سید جواد نقوی نے کی، جبکہ شرکاء میں سابق سینئر فیڈرل سیکریٹری و چیئرمین مولانا ظفر علی خان فاؤنڈیشن خالد محمود، ماہرِ اقبالیات و پیتھالوجسٹ بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر وحید الزمان طارق، بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ شاعر و مصنف میجر (ر) شہزاد، نائب امیر جماعتِ اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، معروف کشمیری شاعر احمد فرہاد، صدر قومی زبان تحریک پاکستان جمیل بھٹی (ستارہ امتیاز)، اور صدر خواتین ونگ قومی زبان تحریک فاطمہ قمر سمیت دیگر ممتاز اہلِ علم شامل تھے۔
علامہ سید جواد نقوی کا صدارتی خطاب — "زبان، ایمان اور تہذیب کی علامت”
علامہ سید جواد نقوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی ایک خصوصی نعمت ہے جسے اپنی توحیدی، خالص اور الگ فکری شناخت کے ساتھ دنیا میں اُبھرنے کا موقع دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ قیامِ پاکستان کے دن سے ہی یہ مملکت ایک نظریے اور فکری تشخص پر قائم تھی، جسے علامہ اقبالؒ نے "خودی” سے تعبیر کیا۔ تاہم، بدقسمتی سے قیام کے بعد ہم نے اس نظریے کی تکمیل کے سفر کو ادھورا چھوڑ دیا — اور یہی عمل اب زبان، تہذیب، اور فکری وحدت کے احیاء سے مکمل ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے عقدِ اخوت قائم کرتے وقت امت کو جن بنیادوں پر جوڑا، ان میں ایمان، تاریخ، تہذیب اور زبان شامل تھیں۔ زبان کسی قوم کی شناخت، ثقافت اور فکر کی ترجمان ہوتی ہے، اور اگر زبان کمزور ہو جائے تو قوم کی فکری بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اردو زبان ہماری قومی وحدت، فکری ہم آہنگی، اور تہذیبی استقامت کی علامت ہے۔ اس کا تحفظ اور فروغ ہر شہری کا قومی و اخلاقی فریضہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ قومی ترقی، فکری استحکام اور علمی خودکفالت کے لیے ضروری ہے کہ اردو کو سرکاری، عدالتی، دفتری اور تعلیمی سطح پر مکمل طور پر نافذ کیا جائے۔
"اردو میں جدید علوم کی منتقلی ناگزیر ہے”
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ جدید دنیا میں ترقی کا راز علم کی قومی زبان میں فراہمی میں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں جدید سائنس، ٹیکنالوجی، اور سماجی علوم کو اردو زبان میں منتقل کیا جائے تو نوجوان نسل کے لیے علم تک رسائی آسان ہو جائے گی، اور وہ اپنی زبان میں سوچنے، تخلیق کرنے اور نئی راہیں نکالنے کے قابل ہو جائیں گے۔
انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ گھریلو سطح پر تحریکِ نفاذِ اردو کا آغاز کریں تاکہ مقتدر اداروں پر آئینی دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 251 کے تحت قومی زبان کو سرکاری سطح پر نافذ کریں۔
مقررین کا خطاب — "اردو، ہماری تہذیب اور تشخص کی اساس”
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اردو صرف رابطے کی زبان نہیں بلکہ ہمارے قومی شعور، فکری ورثے اور تہذیبی استقامت کی بنیاد ہے۔
سابق وفاقی سیکریٹری خالد محمود نے کہا کہ اردو زبان میں قوم کی اجتماعی فکر اور نظریاتی وحدت سمائی ہوئی ہے، لہٰذا اس کی ترویج دراصل قومی استحکام کی ضمانت ہے۔
بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر وحید الزمان طارق نے کہا کہ اقبالؒ کی شاعری دراصل اردو زبان کے ذریعے قوم کو "خودی” اور "احساسِ ملت” کا پیغام دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کو جدید فکری مباحث، سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں داخل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو زبان کے بغیر پاکستان کا وجود اور نظریہ نامکمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی کے غلبے نے نوجوانوں کو اپنی تہذیب اور مذہبی شناخت سے دور کر دیا ہے، اس خلا کو پر کرنے کے لیے اردو زبان کا فروغ ناگزیر ہے۔
شاعر احمد فرہاد نے کہا کہ اردو صرف زبان نہیں، محبت، مزاحمت، اور انسانی اقدار کی ترجمان ہے۔ انہوں نے اردو ادب کو نئی نسل سے جوڑنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ فکری تسلسل برقرار رہے۔
معروف مصنف جمیل بھٹی اور فاطمہ قمر نے کہا کہ قومی زبان تحریک پاکستان نے ہمیشہ اردو کے نفاذ کے لیے آئینی اور جمہوری جدوجہد کی ہے، اور عوامی سطح پر بیداری اس مقصد کے حصول کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
اردو کا فروغ — قومی بقا کی ضمانت
شرکائے کانفرنس نے متفقہ طور پر اس امر پر زور دیا کہ اردو زبان کا تحفظ اور فروغ قومی بقا، فکری آزادی اور تہذیبی خودمختاری کی بنیاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اپنی زبان کو نظر انداز کیا تو ہم اپنی تہذیب، تاریخ اور نظریاتی شناخت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
کانفرنس کے اختتام پر قومی زبان کے فروغ کے لیے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئینی تقاضوں کے مطابق اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر نافذ کرے، اور تعلیمی اداروں میں اردو ذریعۂ تعلیم کو یقینی بنائے۔
تجزیاتی نوٹ
تجزیہ کاروں کے مطابق جامعۃ العروۃ الوثقى لاہور میں ہونے والی یہ کانفرنس نہ صرف اقبالؒ کے فکری ورثے کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے بلکہ موجودہ دور میں اردو زبان کے احیاء اور نفاذ کی نئی جہتیں متعین کرتی ہے۔
یہ کانفرنس اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اردو زبان صرف ماضی کی وراثت نہیں بلکہ مستقبل کی فکری سمت بھی ہے — اور اس کے ذریعے پاکستان اپنی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کر سکتا ہے۔





