
یورپی پارلیمان میں قدامت پسند ارکان کے حزب یورپی پیپلز پارٹی (EPP) کے سربراہ کے مطابق ستائیس رکنی یورپی یونین کے اس پارلیمانی ادارے کی کوشش ہے کہ یورپ میں پناہ گزین یا پناہ کے درخواست دہندہ شامی باشندوں کو اب واپس اپنے وطن جانا چاہیے۔
یورپی پیپلز پارٹی کے رہنما مانفریڈ ویبر نے جرمنی کے کثیر الاشاعت روزنامے ’بِلڈ‘ میں آج اتوار نو نومبر کے روز شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ شامی باشندے، جو واپس اپنے وطن جا سکتے ہیں اور شام کی تعمیر نو میں حصہ لے سکتے ہیں، انہیں جرمنی اور یورپ سے واپس شام چلے جانا چاہیے۔‘‘

’قانونی صورت حال بالکل واضح‘
مانفریڈ ویبر نے اس موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا، ’’قانونی صورت حال بالکل واضح ہے۔ ہم ہنگامی حالات میں مدد کرتے ہیں۔ لیکن جب جنگ ختم ہو گئی ہے، تو پھر شامی باشندوں کو واپس اپنے آبائی وطن چلے جانا چاہیے۔‘‘
جرمنی سے تعلق رکھنے والے اور یورپی پارلیمان میں قدامت پسند ارکان کے حزب کے سربراہ نے تاہم تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں شامی باشندوں کی ان کے وطن واپسی کے لیے فی الحال کوئی بہت سخت ڈیڈ لائنز طے نہیں کی جانا چاہییں۔

ویبر نے کہا، ’’اگر شامی باشندوں کو ملک بدر کر کے ان کے وطن بھیجنا رواں ماہ یا اگلے ماہ ممکن نہ ہو سکے، کیونکہ شام کے کئی علاقے اب بھی پوری طرح تباہ شدہ ہیں، تو ممکن ہے کہ یہی اصول اس سے بعد کے مہینوں میں مؤثر ثابت ہو۔‘‘
مانفریڈ ویبر کے الفاظ میں، ’’ابھی نہیں تو مستقبل میں اس اصول پر لازمی طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔‘‘
شامی مہاجرین کا میزبان یورپی معاشروں میں انضمام کے بعد کردار
یورپی پیپلز پارٹی کے سربراہ نے ایسے شامی مہاجرین کو آئندہ بھی جرمنی اور یورپی یونین کے رکن دیگر ممالک میں مقیم رہنے کی استثنائی اجازت دیے جانے کی حمایت کی، جو اپنے میزبان معاشروں اور وہاں روزگار کی منڈیوں میں ضم ہو چکے ہیں۔

اس قدامت پسند جرمن سیاستدان نے روئٹرز کو بتایا، ’’جرمنی میں ایسے بہت سے شامی باشندے ہیں، جو جرمن معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے یہ سوال بھی پوچھا کہ آیا جرمنی تمام شامی تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو واپس بھیجنا چاہتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ان کا اپنا ہی کہنا تھا کہ نہیں، اس لیے کہ تارکین وطن کے پس منظر والے افراد یورپ کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں صحت کے شعبے سمیت کئی شعبوں میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔


