ڈھاکا: بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں ہفتہ 15 نومبر کو ہزاروں مظاہرین جمع ہوئے اور جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی کے افراد کو غیر مسلم یا ’’کافر‘‘ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ اس بڑے احتجاج کو مبصرین ملک میں آئندہ عام انتخابات سے قبل سخت گیر مذہبی گروہوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور سیاسی طاقت کے اظہار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سخت گیر مذہبی گروہوں کے ایسے جلسے اور ریلیاں بنگلہ دیش کے سیاسی منظرنامے میں مذہب کے بڑھتے ہوئے کردار کی نشان دہی کرتی ہیں
ریلی میں کارکنوں کی جانب سے احمدیہ کمیونٹی کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور بعض مظاہرین نے ایسے بینرز اور ٹی شرٹس بھی پہن رکھے تھے جن پر اس کمیونٹی کے خلاف فوری قانون سازی کا مطالبہ درج تھا۔
پس منظر — احمدیہ کمیونٹی کے خلاف تشدد اور دباؤ کی طویل تاریخ
پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی احمدیہ کمیونٹی گزشتہ کئی دہائیوں سے مذہبی انتہا پسندی اور معاشرتی امتیاز کا سامنا کر رہی ہے۔
گزشتہ برس وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے اور طلبہ کی قیادت میں حکومت مخالف تحریک کے دوران، ملک کے مختلف حصوں سے احمدی برادری کے خلاف اشتعال انگیز حملوں اور گھروں پر ہجوم کے حملوں کی رپورٹس سامنے آئی تھیں۔ ان واقعات کے بعد بین الاقوامی تنظیموں نے بنگلہ دیش میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ پر تشویش ظاہر کی تھی۔
سخت گیر گروہوں کی دوبارہ منظم سرگرمیاں
تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش میں سخت گیر مذہبی تنظیمیں ایک بار پھر سیاسی طور پر سرگرم ہو رہی ہیں اور آئندہ فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
اس احتجاجی ریلی میں بھارت، پاکستان، سعودی عرب اور مصر سے آنے والی مذہبی شخصیات بھی شریک تھیں۔ ان بین الاقوامی شرکا کی موجودگی کو مذہبی گروہوں کی جانب سے ایک بڑے طاقت کے مظاہرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
’’وہ ہم میں سے نہیں‘‘ — مظاہرین کا مؤقف
مظاہرے میں شامل ایک شخص محمد مامون شیخ نے کہا:
’’وہ ہم میں سے نہیں‘‘ — مظاہرین کا مؤقف
’’احمدی کمیونٹی ہمارے نظریے سے مکمل طور پر مختلف ہے، اس لیے وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ وہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح ملک میں رہ سکتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے طور پر نہیں۔‘‘
سخت گیر مذہبی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے بعد کسی بھی نئے نبی پر ایمان رکھنے کو وہ توہینِ مذہب سمجھتے ہیں، اس لیے احمدیہ کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دینے کی قانونی منظوری ضروری ہے۔ (یہ تمام مذہبی آراء مظاہرین اور سخت گیر گروہوں کے دعوے ہیں۔)
احمدیہ کمیونٹی کا ردعمل — ’’مذہب کو سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے‘‘
احمدیہ کمیونٹی کے ترجمان احمد تبشیر چوہدری نے مظاہرین کے مذہبی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا:
’’مذہب کو سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ احمدیہ کمیونٹی بنگلہ دیش کی کل آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے، اس کے باوجود انہیں مسلسل خوف، امتیاز اور تشدد کا سامنا رہتا ہے۔
چوہدری نے کہا:
’’خوف کے باوجود ہم اپنے عقیدے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ہم نہیں جھکیں گے۔‘‘
انتخابات سے قبل سماجی کشیدگی میں اضافہ
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سخت گیر مذہبی گروہوں کے ایسے جلسے اور ریلیاں بنگلہ دیش کے سیاسی منظرنامے میں مذہب کے بڑھتے ہوئے کردار کی نشان دہی کرتی ہیں۔ آئندہ عام انتخابات قریب آنے کے ساتھ ساتھ مذہبی شدت پسندی اور اقلیتوں کے لیے خطرات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
عالمی تنظیموں نے بنگلہ دیش کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنائے اور قانون کی حکمرانی کو کسی دباؤ کے بغیر نافذ کرے۔