مشرق وسطیٰاہم خبریں

غزہ میں موسم سرما کی پہلی بارش، سینکڑوں خیمے ڈوب گئے

وقفے وقفے سے ہونے والی موسلا دھار بارش نے وہ معمولی سامان بھی بھگو دیا، جو یہاں مقیم خاندان غزہ کے دوسرے علاقوں سے اپنی جانوں کے ہمراہ بچا کر ساتھ لا سکے تھے۔

موسم سرما کی پہلی ہی تیز بارش نے ہفتے کے روزغزہ کے وسیع المواصی مہاجر کیمپوں میں پانی بھر دیا، جہاں دو سالہ جنگ سے تباہ حال ڈھانچے اور سیلاب سے نمٹنے کی کوششیں مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس کو اس محصور پٹی سے موصول شدہ اطلاعات کے مطابق رہائشی اپنے خیموں کو بچانے کے لیے پانی کا رخ موڑنے کی خاطر اپنی مدد آپ کے تحت نالیاں کھودتے رہے، جبکہ برساتی پانی پھٹے ترپالوں اور کمزور پناہ گاہوں سے اندر  ٹپکنے لگا۔

وقفے وقفے سے ہونے والی موسلا دھار بارش نے وہ معمولی سامان بھی بھگو دیا، جو ان پناہ گزینوں کی کل جمع پونجی تھا
وقفے وقفے سے ہونے والی موسلا دھار بارش نے وہ معمولی سامان بھی بھگو دیا، جو ان پناہ گزینوں کی کل جمع پونجی تھاتصویر: Omar Al-Qatta/AFP

وقفے وقفے سے ہونے والی موسلا دھار بارش نے وہ معمولی سامان بھی بھگو دیا، جو یہاں مقیم خاندان غزہ کے دوسرے علاقوں سے اپنی جانوں کے ہمراہ بچا کر ساتھ لا سکے تھے۔ تیز ہوائیں خیموں کو اکھاڑ دینے کے ساتھ ساتھ مشکل سے جمع کیے گئے کھانے پینے کے ذخائر برباد کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے انسانی ہمدردی کا زون قرار دیا گیا المواصی گزشتہ گرمیوں سے تقریباً 4 لاکھ 25 ہزار بے گھر فلسطینیوں کا مرکز بن چکا ہے ، جن کی اکثریت عارضی خیموں میں رہنے پر مجبور ہے۔ مزید بارش کے خدشے کے ساتھ کئی لوگ تباہ شدہ عمارتوں میں پناہ لینے لگے ہیں، چاہے وہ منہدم ہونے کے قریب ہی کیوں نہ ہوں اور ان عمارتوں میں پڑنے والی بڑی دراڑیں صرف ترپالوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔
غزہ میں جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی تھی، جب حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر وہ دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس میں تقریباً 1,200 افراد مارے گئے اور 251 یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ حماس اب بھی تین یرغمالیوں کی لاشیں اپنے پاس رکھے ہوئے ہے، جن کی واپسی کے بغیر اسرائیل جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی طرف پیش رفت سے انکاری ہے۔

 برساتی پانی پھٹے ترپالوں اور کمزور پناہ گاہوں سے اندر  ٹپکنے لگا
برساتی پانی پھٹے ترپالوں اور کمزور پناہ گاہوں سے اندر  ٹپکنے لگاتصویر: Omar Al-Qatta/AFP

حماس کا کہنا ہے کہ ملبے تلے دبی لاشیں مل نہیں رہیں جبکہ اسرائیل اسے تاخیری حربہ قرار دیتا ہے۔
دس اکتوبر سے نافذ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کا اختتام قریب ہے۔ اگلے مرحلے میں غزہ کے لیے عبوری حکومتی نظام کی تشکیل اور ایک بین الاقوامی استحکامی فورس کی تعیناتی شامل ہیں، مگر دونوں معاملات میں بےیقینی برقرار ہے۔
غزہ میں حماس کی زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 69 ہزار 100 فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ یہ وزارت شہری آبادی اور جنگجوؤں میں فرق نہیں کرتی۔ جنگ نے غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے اور تقریباً 20 لاکھ آبادی میں سے 90 فیصد بے گھر ہو چکی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button