کالمزحیدر جاوید سید

شگوفے ” عذاب ” اور سوتنوں کی لڑائی ….حیدر جاوید سید

قبلہ خان صاحب نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے اپنی جماعت کے ارکان کو مستعفی ہونے کا بھی حکم دے دیا ہے

سیاست کے میدانوں میں صورتحال بڑی دلچسپ ہے۔ قبلہ خان صاحب روزانہ کی بنیاد پر نیا شگوفہ مارکیٹ میں لانچ کرتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی ساجھے دار بنی ’’سوتنوں‘‘ میں لڑائی دیکھنے والی ہے۔
انجمن تحفظ حب الوطنی سپانسرڈ بائی آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے بلونگڑوں و بلونگڑیوں کے ساتھ درجن بھر فیس بکی مجاہد لگتا ہے موسم برسات اور سیلاب ختم ہونے سے قبل ہی کالا باغ ڈیم بنواکے ہی رہیں گے ادھر تحریک انصاف نے اڈیالہ جیل میں بند اپنے مالک کے حکم پر قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا ہے۔
اس بائیکاٹ کا اعلان علیمہ خان نے گزشتہ سے پیوستہ روز اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ یہ وہی گفتگو ہے جس میں ایک سوال کے جواب میں علیمہ خان نے صحافی سے کہا ’’تم شیطانی سوال کرتے ہو آئندہ ایسا کیا تو میں ا خباری نمائندوں سے بات نہیں کیا کروں گی‘‘۔
علیمہ خان کی جگہ یہ بات کسی پشتون بلوچ سندھی یا سرائیکی خاتون اورمرد نے کی ہوتی تو ذرائع ابلاغ کی چیخیں سننے والی اور ماتمِ آزادی صحافت دیکھنے والا ہوتا۔ صحافی کیا ان کے مالکان بھی جانتے ہیں کہ اگر علیمہ خان کے حقارت بھرے الفاظوں کا نوٹس لیا جاتا تو نتیجہ کیا نکلنا تھا۔
سوشل میڈیا پر دندناتے بدزبان ات اٹھادیتے۔ انصافی شعور ہی یہ ہے کہ گالی تکرار سے اور بلند آہنگ میں دو۔
قبلہ خان صاحب نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے اپنی جماعت کے ارکان کو مستعفی ہونے کا بھی حکم دے دیا ہے۔ قبل ازیں قومی اسمبلی کے لئے عمر ایوب کی جگہ محمود خان اچکزئی کو قائد حزب اختلاف نامزد کرنے کا اڈیالہ جیل سے جاری ہوا حکم پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے یہ کہہ کر موخر کردیا تھا کہ عمر ایوب کی سزا اور نااہلی کا معاملہ پشاور ہائیکورٹ میں ہے جب تک عدالت کا فیصلہ نہیں آجاتا مزید کچھ نہیں ہوگا۔ اب خان صاحب نے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو سینیٹ میں شبلی فراز کی جگہ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ راجہ ناصر عباس جعفری اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔
شبلی فراز نے بھی عمر ایوب کی طرح سزا اور نااہلی کے معاملے میں نااہلی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کررکھا ہے۔ ظاہر ہے عدالتی فیصلے تک کچھ نہیں ہونا مگر وحدتیوں نے کھڑکی توڑ مبارکبادوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے (اس خیال سے تحریر نویس کا متفق ہونا ضروری نہیں) کہ علیمہ خان کی دوسری دو بہنوں کے ہمراہ 26 اگست کو اڈیالہ جیل میں ملاقات ہی اس لئے کروائی گئی کہ وہ اپنے بھائی کو ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ پر آمادہ کرلیں گی۔ تجزیہ نگاروں کی بات درست نہ بھی ہو تو یہ امر غور طلب ہے کہ پچھلے دو اڑھائی ماہ سے عمران خان کی تین میں سے دو بہنوں کی تو ہفتہ وار ملاقات کروائی جارہی تھی لیکن اڈیالہ جیل کے باہر موجود اور ملاقاتیوں کی لسٹ میں نام ہونے کے باوجود علیمہ خان کی ملاقات نہیں کروائی جارہی تھی مگر 26 اگست کو جیسے ہی ان کی اپنے بھائی سے ملاقات کروائی گئی انہوں نے جیل سے باہر آتے ہی اعلان کردیا کہ ’’عمران خان نے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کی ہدایت کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے اپنے ارکان کو مستعفی ہونے کی ہدایت کی ہے ” ۔
بہرحال ملاقات اور اعلان میں سے دور کی کوڑیاں نکالنے والے بہتر جانتے ہوں گے کہ یہ فیصلہ کیوں کروایا گیا (کروایا گیا تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں) البتہ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ثناء اللہ مستی خیل کا بیان ذرائع ابلاغ کی نیوز ویب سائٹس پر جگ مگ کررہا ہے۔ مستی خیل کہتے ہیں تحریک انصاف مرحوم میاں اظہر کی وفات سے خالی ہونے والی نشست کے علاوہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی باقی ماندہ نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرے گی۔ بائیکاٹ کی مستی خیل نے جو وجوہات بیان کی ہیں وہ وہی ہیں کہ ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے سارے ادارے اور محکمے عمران خان کے خلاف ملے ہوئے ہیں۔
ہمارے خیال میں ضمنی انتخابات عین ممکن ہے کہ مقررہ تاریخوں پر نہ ہوں وجہ عمران خان کا بائیکاٹ نہیں بارشوں اور سیلاب سے پیدا شدہ صورتحال ہے۔ یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں (بدھ 27 اگست) کو سیالکوٹ شہر میں ہر طرف پانی ہی
پانی ہے لیکن پنجاب کی وزیراطلاعات محترمہ بیگم سمیع اللہ عظمیٰ بخاری کا دعویٰ ہے کہ سیالکوٹ سے دو اڑھائی گھنٹوں میں پانی نکال دیا گیا تھا اب شہر پرسکون اور شہری شاداں ہیں۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ کا صاف ستھرا اور شہریوں کا شاداں سیالکوٹ کہاں ہے اگر کسی کو معلوم ہو تو ہمیں ضرور مطلع فرمائے۔
اسٹیبلشمنٹ کی "ساجھے داری” میں پیش پیش مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے جیالے اور متوالے سوشل میڈیا کے محاذوں پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں ہمزاد فقیر راحموں کہتے ہیں یہ سوتنوں کی معمول کی لڑائی ہے ہم اپنے ہمزاد کی بات پر مسکراتو سکتے ہیں، متفق البتہ نہیں کیونکہ آجکل پیپلزپارٹی والوں کے خیال میں صحافی طوائف ہیں ان کی کوئی اوقات نہیں یہ اسٹیبلشمنٹ کے ٹائوٹ ہیں _ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں خوبیوں یا خامیوں سے گندھے ہوئے ایک شخص کو چند دن قبل صدر مملکت آصف علی زرداری کا ترجمان مقرر کیا گیا ہے۔ بعض جیالے اس تقرری کی توجیہات پیش کررہے ہیں اور بعض کا دعویٰ ہے کہ یہ تقرری صدر مملکت نے نہیں نظام چلانے والوں نے کی ہے۔
میں ان دونوں باتوں پر قہقہہ لگانا چاہتا ہوں مگر بھوترے ہوئے فیس بکی جیالوں سے ڈر لگتا ہے۔
معاف کیجئے گا یہ ذکر ضمناً آگیا ہم کالم کے اس حصے میں عرض یہ کرنا چاہتے تھے کہ لاہور اور مضافات میں بارشوں سے موسم خاصا خوشگوار ہے۔ پچھلی دو راتوں میں اے سی چلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ بارشوں، سیلاب اور ان سے ہوئی تباہیاں ہمارے خیال میں نیچر سے لڑائی کرتے رہنے کا نتیجہ ہیں بہت ادب کے ساتھ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انسانی لالچ اور ماحولیات کے قتل در قتل کے نتیجے میں موسموں کے برہم ہونے کو قدرت کا عذاب سمجھتا ہوں نہ ایک مولوی کی اس بات سے متفق ہوں کہ یہ زناکاری اور دوسری برائیوں کی بہتات پر قدرت کا عذاب ہیں۔
اپنی تمام تر آزاد خیالی کے باوجود خدا کو عادل سمجھتا ہوں اور یہ عدل الٰہی کے خلاف ہے کہ جرائم اور برائیوں کے مقدس اڈوں کو تو کچھ نہ کہے مگر بستیوں پر عذاب نازل کردے۔
ہمارے ہاں کئی عشروں سے جنگلات کاٹے جارہے ہیں، بجری بنانے کے لئے پہاڑیاں صاف ہورہی ہیں، ہائوسنگ سوسائٹیاں لاکھوں درخت نگل گئیں ملتان کی مثال زندہ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے ہے
تین چار بڑی ہائوسنگ سوسائٹیوں نے ڈی ایچ اے سمیت 5 سے 7 لاکھ بلکہ اس سے زیادہ درخت کاٹ دیئے۔ پانی کے قدرتی راستوں جو ہزاروں سالوں سے قائم ہیں پر غیرقانونی تعمیرات اور نیچر کے خلاف ہوئے دوسرے کام ہمارے سامنے ہیں اس لئے ہمیں عذاب عذاب کی تکرار سے بہلنے کی بجائے عصری شعور کے ساتھ اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر چار اور نگاہ دوڑالینی چاہیے۔
آج کے لئے اتنا ہی باقی باتیں اگلے کالم میں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button