
امریکی فوج کا منشیات بردار مبینہ کشتی پر 21 واں حملہ، 3 ہلاک — اتحادی ممالک میں تشویش اور تناؤ بڑھ گیا
"انٹیلی جنس کی تصدیق کے مطابق یہ جہاز منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ میں ملوث تھا اور معروف ڈرگ روٹس پر سفر کر رہا تھا۔ کشتی پر سوار تین افراد منشیات سے وابستہ دہشت گرد تھے جو کارروائی میں ہلاک ہو گئے۔"
واشنگٹن — امریکی فوج نے منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ایک اور مبینہ کشتی کو نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ حملہ امریکی افواج کی جانب سے رواں مہم کے دوران مبینہ منشیات بردار کشتیوں پر کیا جانے والا 21 واں حملہ ہے۔
امریکی سدرن کمانڈ (SOUTHCOM) نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ حملہ ہفتے کے روز کیا گیا اور اس کارروائی میں پینٹاگون نے بحریہ اور فضائیہ کے جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
سدرن کمانڈ نے اپنے بیان میں کہا:
"انٹیلی جنس کی تصدیق کے مطابق یہ جہاز منشیات کی غیر قانونی اسمگلنگ میں ملوث تھا اور معروف ڈرگ روٹس پر سفر کر رہا تھا۔ کشتی پر سوار تین افراد منشیات سے وابستہ دہشت گرد تھے جو کارروائی میں ہلاک ہو گئے۔”
حملہ مشرقی بحرالکاہل میں بین الاقوامی پانیوں پر ہوا
امریکی فوج کے مطابق یہ کشتی مشرقی بحرالکاہل کے بین الاقوامی پانیوں میں سفر کر رہی تھی، جہاں اسے کارروائی کے دوران نشانہ بنایا گیا اور بعدازاں یہ سمندر میں ڈوب گئی۔
یہ علاقہ جنوبی و لاطینی امریکا سے منشیات کی ترسیل کے لیے ایک اہم راستہ سمجھا جاتا ہے۔
تازہ ترین حملے کے بعد امریکی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 83 تک پہنچ گئی ہے۔
ڈرون، گن شپ اور فضا سے حملے — امریکہ کی ’’شدید تر‘‘ انسدادِ منشیات مہم
CNN کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون اس مہم میں:
لڑاکا طیارے
ڈرونز
AC-130 گن شپ
اور دیگر جدید فضائی ہتھیار
استعمال کر رہا ہے، جس کا مقصد امریکہ میں منشیات کی ترسیل کو ’’ابتدائی مرحلے پر ہی ختم کرنا‘‘ ہے۔
فوجی حکام کے مطابق یہ کارروائیاں ’’ضرورت‘‘ کے تحت کیے جانے والے حملے ہیں جن کا ہدف منظم جرائم پیشہ گروہوں کی سمندری نقل و حرکت کو توڑنا ہے۔
قانونی حیثیت پر سوالات — کیا امریکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے؟
محکمۂ انصاف نے کانگریس کو بتایا ہے کہ انتظامیہ کو ان حملوں کے لیے کسی نئی منظوری کی ضرورت نہیں، جس نے قانونی ماہرین میں بحث چھیڑ دی ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے:
بین الاقوامی پانیوں میں غیر ریاستی اہداف پر حملے
بغیر عدالتی پراسیس کے کشتیوں کو ڈبونا
اور اسمگلنگ کے محض شبہ پر مہلک طاقت کا استعمال
بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔
یہ بحث امریکہ کے اندر بھی شدت اختیار کر رہی ہے کہ آیا ’’مبینہ‘‘ اہداف پر مہلک حملے اخلاقی اور قانونی طور پر درست ہیں۔
اتحادیوں میں بے چینی — امریکا سے انٹیلی جنس شیئرنگ معطل
امریکی کارروائیوں نے اس کے قریبی اتحادیوں میں بھی تشویش پیدا کر دی ہے۔
برطانیہ کی ناراضی
CNN کے مطابق برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ منشیات کی اسمگلنگ سے متعلق خفیہ معلومات کا تبادلہ عارضی طور پر روک دیا ہے۔
برطانوی حکام کے مطابق وہ نہیں چاہتے کہ ان کی فراہم کردہ معلومات ایسے حملوں کے لیے استعمال ہوں جنہیں لندن ’’بین الاقوامی قوانین کے خلاف‘‘ تصور کرتا ہے۔
کولمبیا کی شدید ردِعمل
کولمبیا کے صدر نے بھی گزشتہ ہفتے امریکی کارروائیوں پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اعلان کیا کہ:
"جب تک امریکہ یہ حملے بند نہیں کرتا، کولمبیا امریکہ کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ معطل کر دے گا۔”
یہ صورتحال امریکا اور لاطینی امریکی ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے سفارتی تناؤ کی نشاندہی کرتی ہے۔
21 واں حملہ — گزشتہ ہفتے 20 واں حملہ بھی کیا گیا تھا
امریکی محکمۂ دفاع کے ایک اہلکار نے گزشتہ ہفتے اطلاع دی تھی کہ امریکی افواج نے ایک اور مبینہ منشیات بردار کشتی پر 20 واں حملہ کیا تھا۔
صرف ایک ہفتے کے اندر پینٹاگون کی جانب سے دو حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ اپنی سمندری انسدادِ منشیات مہم کو تیز تر کر رہا ہے۔
پس منظر: امریکہ کی ’’بحر الکاہل منشیات مخالف جنگ‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی نئی حکمتِ عملی منشیات کی رسد کو ’’ماخذ پر ختم کرنے‘‘ پر مبنی ہے۔
لیکن اس حکمتِ عملی پر دو بڑے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں:
کیا مبینہ اسمگلروں کو بین الاقوامی پانیوں میں نشانہ بنانا قانونی ہے؟
کیا یہ حکمتِ عملی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا رہی ہے؟
سٹڈی سینٹرز کے مطابق، یہ مہم لاطینی امریکہ میں امریکہ کے کردار کو ’’دوبارہ تنازع کا مرکز‘‘ بنا رہی ہے۔
نتیجہ: امریکہ کی بڑھتی کارروائیاں اور عالمی سیاست میں تناؤ
تازہ ترین حملہ واضح کرتا ہے کہ امریکی فوج خطے میں اپنی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کر رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی:
اتحادیوں کے ساتھ اعتماد میں کمی
قانونی سوالات
بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیاں
اور انسانی حقوق کے خدشات
بھی سر اٹھا رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے یہ مہم جاری رکھی تو ’’سمندری انسدادِ منشیات‘‘ ایک بڑا سفارتی بحران پیدا کر سکتی ہے۔



