مخصوص "پس منظر” کی ریاستی پالیسیاں…. حیدر جاوید سید
گزشتہ کئی گھنٹوں سے لغات اور کچھ دوسری کتابوں کے اوراق الٹ پلٹ کر ’’عہد وفا نبھانا چاہتے ہیں‘‘ کی تشریح و تفسیر سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ سچ پوچھئے تو اس میں ناکامی ہوئی۔ ساڑھے چار عشرے صحافت کے کوچے میں قلم مزدوری کرتے ہوئے گزرگئے اس عرصہ میں یہ بھی نہیں سمجھ پایا کہ مخصوص پس منظر میں ریاست کی جو پالیسیاں بنتی ہیں ان سے "فیض" کون پاتا ہے؟
گزشتہ کئی گھنٹوں سے لغات اور کچھ دوسری کتابوں کے اوراق الٹ پلٹ کر ’’عہد وفا نبھانا چاہتے ہیں‘‘ کی تشریح و تفسیر سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ سچ پوچھئے تو اس میں ناکامی ہوئی۔ ساڑھے چار عشرے صحافت کے کوچے میں قلم مزدوری کرتے ہوئے گزرگئے اس عرصہ میں یہ بھی نہیں سمجھ پایا کہ مخصوص پس منظر میں ریاست کی جو پالیسیاں بنتی ہیں ان سے "فیض” کون پاتا ہے؟
وجہ یہی ہے کہ ریاست کی پالیسیاں دنیا بھر میں ممکن ہے اپنے اپنے لوگوں کے لئے خیروبھلائی کا باعث بنتی ہوں ہمارے یہاں ’’الٹے بانس بریلی کو‘‘ والا معاملہ ہے۔
کبھی کبھی مایوسی کی چند ساعتیں حملہ آور ہوتی ہیں مگر ان سے نجات کی سعی بھی فوراً کرتا ہوں۔ مایوسی کی دیمک زندہ انسان کو کیا ایک بھرے پُرے سماج کو چاٹ جاتی ہے۔ کئی برس ہوتے ہیں جب برصغیر پاک و ہند میں بخاری سادات کے جدِامجد حضرت سیدی و مولائی سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ کا ایک ارشاد گرامی پڑھا تھا، فرماتے ہیں
’’زندگی کا کامل احساس حسد اور مایوسی سے محفوظ رہ کر ہی ہوتا ہے‘‘۔
ماہ و سال گزرتے جارہے ہیں اس دوران زندگی کے احساس کو اصلِ زندگی سمجھا۔ حسد اور مایوسی سے دامن بچاکر سفر طے کررہا ہوں۔ حق بندگی ہو یا حق زندگی و دوستاں، یہ احسان نہیں ہوتے کسی پر۔
معاف کیجئے گا بات دوسری طرف جارہی ہے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کہتے ہیں ’’جو لوگ پاکستان کے ساتھ عہد وفا نبھانا چاہتے ہیں انہیں موقع دینا چاہیے، ریاست کی پالیسیاں مخصوص پس منظر میں بنتی ہیں‘‘۔
ہم اس ارشاد کو وزیراعظم کے اس انٹرویو کی تشریح سمجھ لیتے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ ’’کالعدم ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دے تو معاف کردیں گے، کچھ گروپوں سے افغانستان میں بات چیت چل رہی ہے اس ضمن میں افغان طالبان بھی مدد کررہے ہیں‘‘۔
یہاں جو سوال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا ہمیں یعنی رعایا کو یہ حق ملے گا کہ جان پائیں کہ وہ مخصوص پس منظر کیا ہے جس پر نئی پالیسی استوار ہوئی؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ اس ضمن میں دستور پاکستان کیا کہتا ہے۔ کیا ریاست مقتولین کے ورثا سے پوچھے بغیر قاتلوں کو معاف کرنے کا حق رکھتی ہے؟
ہمارے پاوں کے نیچے زمین اور سرپر آسمان موجود نہیں اس لئے ہم یہ سوال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کوئی یہ بھی بتلائے کہ وہ مخصوص پس منظر کیا تھا جب لشکر بنانے کی پالیسیاں محبوب رہیں؟ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ٹی ٹی پی کے چند گروپوں (بقول وزیراعظم) سے مذاکرات کے آغاز پر حکومت نے پارلیمان کو اعتماد میں لینے اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس سے سوال کرنے اور ان کی رائے لینے کی ضرورت محسوس کیوں نہ کی۔
کیا جناب وزیراعظم اور ان کے رفقا یہ نہیں سمجھتے کہ عوامی اعتماد کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ مسائل پیدا کرسکتا ہے۔
عوام یا یوں کہہ لیجئے مقتولین کے ورثاء سے پوچھنے کی اجازت لینے کی بات فقط ہم ہی نہیں کررہے، پچھلے 24گھنٹوں میں مختلف الخیال لوگوں نے بھی یہی سوال اٹھایا ہے۔ اس میں نازک سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت معافی کے نام پر اپنی ’’قوت‘‘ میں اضافے کی خواہش مند ہے؟
اس سے ملتے جلتے کچھ سوالات اور بھی ہیں لیکن کالم کے دامن میں تفصیل کی گنجائش نہیں۔
یہ بجا ہے کہ عسکریت حتمی حل کبھی نہیں ہوا لیکن اس پر تو غور کیا جانا چاہیے کہ عسکریت پسندی کا دروازہ کیوں کھلا، کس نے کھولا، فیض پانے والے کون تھے، موت کا رزق بنی مخلوق کے ورثا کے جذبات کیا ہوسکتے ہیں۔
امن کی اہمیت اور ضرورت سے کون انکار کرسکتا ہے۔ اصل معاملہ یہی ہے کہ جو حکومت منتخب اداروں میں قانون سازی کی پوزیشن میں نہ ہو، آرڈیننسوں سے کام چلارہی ہو وہ اتنا بڑا قدم اٹھانے سے قبل منتخب اداروں کو ہی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہ کرے تو شبہات کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔
مثال کے طور پر (ن) لیگ کے گزشتہ دور اقتدار میں جب حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے عمل کا آغاز ہوا تھا تو اس وقت کی حکومت نے اپنی اپوزیشن کو بطور خاص اعتماد میں لیا تھا۔ وہی مذاکرات جس میں جناب عمران خان ٹی ٹی پی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنی اپوزیشن کے دوسرے رہنمائوں کے ساتھ جناب عمران خان سے بھی ملاقات کی اور تفصیل کے سابق تبادلہ خیال کیا تھا۔
چلیں اگر موجودہ صورتحال میں منتخب ایوانوں کو اعتماد میں لینے کا وقت نہیں تھا تو سینیٹ چیئرمین اور سپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے اپوزیشن کے پارلیمانی رہنماوں کو اس حوالے سے اعتماد میں لے لیا جاتا۔
وسیع تر قومی اتحاد اور خاص کر اس معاملے میں ہم آہنگی بہت ضروری تھی اور ہے۔
یہ چند گھرانوں یا فردِ واحد کا مسئلہ نہیں، 70ہزار سے زائد مقتولین کے ورثاء کا معاملہ ہے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں عوام الناس کے ووٹوں سے ہی منتخب ہوا کرتے ہیں۔ جمہوری نظام کے ان دونوں فریقوں کے درمیان اس حساس معاملے پر ہم آہنگی سے اولاً ان سوالات سے بچا جاسکتا تھا جو دو دن سے لوگوں کی زبانوں پر ہیں
ثانیاً یہ کہ اس سے یہ تاثر نہ ابھرتا کہ کچھ تو ایسا ہے جس کی پردہ داری مقصود ہے۔
وزیراعظم اور ان کے رفقا کو بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے اجتماعی یا اس کے چند گروپوں سے مذاکرات اور عام معافی جیسے معاملات گڈی گڈے کا کھیل نہیں۔
(ن) لیگ، پیپلزپارٹی دوسری سیاسی جماعتوں اور عوام کا یہ کہنا درست ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے عمل سے عوام اور منتخب قیادت کو بے خبر کیوں رکھا؟
بہرطور اس ضمن میں فوری طور پر تو یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے پر اپوزیشن سے بیٹھ کر بات کرے، منتخب ایوانوں کو اعتماد میں لے۔ ایسا کیا جاتا ہے تو اس کے عوام میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
یہاں ایک بات اور ہے وہ یہ کہ ٹی ٹی پی میں لگ بھگ 18گروپ شامل تھے ان میں سے چند گروپوں نے الگ ہوکر نئی تنظیم بنائی تھی۔ ان گروپوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔ ’’را‘‘ کی اعانت محض درشنی فیشنی بات ہرگز نہیں، شواہد لوگوں کے سامنے ہیں۔
اب کیا حکومت اپنی ہی کہی باتیں بھول بھال کر آگے بڑھ ر ہی ہے ؟۔
حرف آخر یہ ہے کہ جب تک عوام کو سنجیدہ نوعیت کے سوالات کے تشفی بھرے جوابات نہیں مل جاتے جوکہ ظاہر ہے حکومت نے دینے ہیں اس وقت تک سوالات اٹھتے رہیں گے۔
مناسب ترین عمل یہی ہوگا کہ حکومت پارلیمان سے اس ضمن میں مینڈیٹ حاصل کرے اور اس امر کو بھی یقینی بنائے کہ حکومت کے کسی عمل یا اقدام سے عوام میں مایوسی نہ پھیلنے پائے۔