صحت

شوگر کے مریضوں کے پاؤں کے زخم بھرنے میں معاون صوتی لہریں

نئی تحقیق اسپین کے طبی محققین کی ایک ٹیم نے کی، جس کے نتائج حال ہی میں 'میڈیکل سائنسز‘ نامی طبی تحقیقی جریدے کی تازہ اشاعت میں ایک رپورٹ کا حصہ بنے۔

ایک نئی طبی تحقیق کے مطابق ذیابیطس یا شوگر کے مریضوں کے پاؤں کے دیرینہ زخموں کے بھرنے کے عمل میں خاص قسم کی صوتی لہریں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایسی ہائی انرجی ساؤنڈ ویوز زخموں کے بھرنے کے عمل کو تیز کر سکتی ہیں۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس موضوع پر نئی تحقیق اسپین کے طبی محققین کی ایک ٹیم نے کی، جس کے نتائج حال ہی میں ‘میڈیکل سائنسز‘ نامی طبی تحقیقی جریدے کی تازہ اشاعت میں ایک رپورٹ کا حصہ بنے۔

اس تحقیق کے دوران ماضی میں صحت سے متعلق مختلف اوقات میں مکمل کیے گئے پانچ تجرباتی منصوبوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو ایک جگہ جمع کر کے اس کا تجزیہ کیا گیا۔

ایک نرس ایک مریض کے زخمی پاؤں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے
شوگر کے مریضوں کے پاؤں کے زخم بھرنے میں بہت دیر لگتی ہےتصویر: Norbert Försterling/dpa/picture alliance

ای ایس ڈبلیو ٹی تھیراپی

ہسپانوی محققین کی ٹیم اس طبی تحقیقی جائزے کے دوران اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر مروجہ طریقہ علاج اور معیاری تھیراپیز کے ساتھ ساتھ مریضوں کی صوتی جھٹکوں کی صورت میں ماورائے جسم آوازوں کے ساتھ تھیراپی کی جائے، تو ذیابیطس کے مریضوں کے پاؤں کے دیرینہ زخموں کے مندمل ہو جانے کا امکانات کو بڑھا کر تقریباﹰ تین گنا کیا جا سکتا ہے۔

اس طرح کی تھیراپی کو extracorporeal shock wave therapy یا مختصراﹰ ESWT کہا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی تھیراپی میں صوتی توانائی یا ساؤنڈ انرجی کو خون کی نئی شریانوں کی نشوونما، پٹھوں کے دوبارہ بننے اور سوزش میں کمی کو تحریک دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ہائی انرجی ساؤنڈ ویوز کے ساتھ مریضوں کی ایسی تھیراپی ان کے کسی بھی ہسپتال میں ‘آؤٹ پیشنٹ‘ کے طور پر مختصر قیام کے دوران کی جاتی ہے اور اس کے لیے مریضوں کو پہلے بے ہوش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

شوگر کے کئی مریضوں کو روزانہ خود کو ایک سے زائد مرتبہ انسولین کے انجیکشن (تصویر) لگانا پڑتے ہیں
شوگر کے کئی مریضوں کو روزانہ خود کو ایک سے زائد مرتبہ انسولین کے انجیکشن لگانا پڑتے ہیںتصویر: Niehoff/IMAGO

شاک ویو ساؤنڈ تھیراپی کے اثرات کتنے مثبت؟

اس ریسرچ کے دوران ذیابیطس کے زیر مطالعہ مریضوں کی مجموعی تعداد 672 تھی۔ ان سب کے پاؤں پر زخم تھے، جو پرانے تھے اور تمام مریضوں کے ایسے زخموں کی طبی دیکھ بھال معیاری طریقوں سے کی گئی۔

لیکن ان 672 مریضوں میں سے نصف یعنی 336 کے زخموں کی دیکھ بھال کے لیے معیاری طریقوں کے ساتھ ساتھ ان کی ای ایس ڈبلیو ٹی تھیراپی بھی کی گئی، جس کا انفرادی دورانیہ تین ہفتوں سے لے کر 20 ہفتوں تک رکھا گیا۔

موٹاپا اور ذیابیطس بھی سرطان کا سبب بن رہے ہیں

اس تھیراپی کے بعد ریسرچرز نے دیکھا کہ اسٹینڈرڈ میڈیکل کیئر والے مریضوں کے گروپ کے مقابلے میں ساؤنڈ ویوز شاک تھیراپی والے مریضوں میں ان کے پاؤں کے زخموں میں بہتری کے امکانات تین گنا ہو گئے تھے۔

ایک شخص جس کی ایک ٹانگ گھٹنے سے نیچے مصنوعی ہے
شوگر کے مریضوں کے پاؤں کے زخم پھیلنے لگیں، تو ان کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹروں کو ان کے پاؤں یا ٹانگ کا ایک حصہ کاٹنا بھی پڑ جاتا ہےتصویر: Winfried Rothermel/IMAGO

شوگر کے مریضوں میں فٹ السرز کتنا بڑا مسئلہ؟

ذیابیطس کے مریضوں کو دنیا بھر میں ڈاکٹر ہمیشہ یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں صاف رکھیں اور ان پر کوئی چوٹ نہ لگنے دیں۔ ایسا اس لیے کہا جاتا ہے کہ کوئی چوٹ لگنے سے یا بظاہر کوئی چوٹ نہ لگنے کے باوجود ایسے مریضوں کے پاؤں پر جو زخم بن جاتے ہیں، وہ بالعموم بھرتے نہیں۔

ان زخموں کو ڈاکٹر فٹ السرز (foot ulcers) کہتے ہیں اور وہ ذیابیطس کے مرض کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سب سے عام لیکن انتہائی سنجیدہ پیچیدگی قرار دیے جاتے ہیں۔

پاؤں پر ایسے دیرینہ اور نہ بھرنے والے زخم دنیا بھر میں تقریباﹰ 463 ملین انسانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے زخم پھیلتے جانے کی صورت میں 40 فیصد تک مریضوں کی زندگیاں بچانے کی کوشش میں ان کے پاؤں کاٹ دینا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

محققین پُرامید کیوں؟

اس میڈیکل ریسرچ کے نتیجے میں ہسپانوی محققین کے لیے ایسے زخموں کے مندمل ہو جانے کے امکانات کا تین گنا ہو جانا بہت امید پسندی کی وجہ بنا۔

اس ریسرچ ٹیم کی طرف سے کہا گیا، ”ذیابیطس کی بیماری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فٹ السرز، جن کا ایک طبی پیچیدگی کے طور پر علاج اکثر بہت ہی مشکل ہوتا ہے، یہ ساؤنڈ ویو تھیراپی ایسے السرز کے علاج میں ایک حوصلہ افزا پیش رفت کا اشارہ دیتی ہے۔‘‘

ساتھ ہی اس ٹیم کی طرف سے کہا گیا، ”اس تھیراپی سے ثابت ہونے والی بہتری اس لیے بھی بہت خوش آئند ہے کہ فٹ السرز شوگر کے مریضوں کی روزمرہ زندگی اور ان کے معیار زندگی کو واضح طور پر متاثر کرتے ہیں۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button