
ناصر خان خٹک-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
ججز ٹرانسفر کیس میں ایک اور بڑی اور غیر معمولی پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں نے اپنی انٹرا کورٹ اپیل کو سپریم کورٹ سے وفاقی آئینی عدالت منتقل کیے جانے کے خلاف متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے 27ویں آئینی ترمیم اور اس کے تحت قائم کی گئی وفاقی آئینی عدالت کی آئینی حیثیت پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس متفرق درخواست کی سماعت 24 نومبر کو وفاقی آئینی عدالت میں مقرر کر دی گئی ہے۔
درخواست دائر کرنے والے ججوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ثمن رفت امتیاز اور جسٹس طارق محمود جہانگیری شامل ہیں۔ یہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ کے انتہائی اہم آئینی تنازع میں بدل چکا ہے۔
پس منظر: ججز کے تبادلے، سپریم کورٹ کا فیصلہ اور نئی آئینی عدالت کا قیام
یہ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب تین مختلف ہائی کورٹس کے ججز کا تبادلہ اسلام آباد میں کیا گیا۔ اس فیصلے کو بعض ججوں نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے چیلنج کیا۔ تاہم جون میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اس تبادلے کو برقرار رکھتے ہوئے قرار دیا کہ یہ اقدام آئین کے خلاف نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ پانچ ججز نے اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی، مگر حیران کن طور پر اس اپیل کو بعد میں 27ویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ سے ہٹا کر نئی قائم شدہ وفاقی آئینی عدالت منتقل کر دیا گیا۔ یہ وہی اقدام ہے جسے اب ججوں نے چیلنج کیا ہے۔
درخواست کا مؤقف: “اپیل کی منتقلی غیر آئینی، غیر مؤثر اور بنیادی آئینی ڈھانچے سے متصادم”
دائر کی گئی متفرق درخواست میں ججوں نے تفصیلی قانونی بنیادوں پر مؤقف اختیار کیا ہے کہ:
1. سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت
ان کا کہنا ہے کہ ان کی اپیل کو سپریم کورٹ سے نکال کر ایک نئی عدالت میں منتقل کرنا آئینی ڈھانچے میں غیر ضروری مداخلت ہے، کیونکہ سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اور اس کے اختیارات میں کمی یا ترمیم بغیر مضبوط آئینی جواز کے نہیں ہو سکتی۔
2. 27ویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے ٹکراتی ہے
ججوں کا مؤقف ہے کہ:
اس ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کا قیام
اس کے سپریم کورٹ جیسی یا اس سے متصادم نوعیت کے اختیارات
سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں براہِ راست مداخلت
یہ سب آئین کے بنیادی ڈھانچے — یعنی عدلیہ کی وحدت، سپریم کورٹ کی بالادستی، اختیارات کی علیحدگی اور عدلیہ کی آزادی — سے متصادم ہیں۔
آئین ریاست کے تین ستونوں—مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ—کی واضح اور ناقابلِ تنسیخ تقسیم فراہم کرتا ہے۔ ججوں کے مطابق پارلیمنٹ ترمیم تو کر سکتی ہے، لیکن ایسا اختیار استعمال نہیں کر سکتی جس سے عدلیہ کی حیثیت یا ساخت متاثر ہو۔
3. وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا مقصد سپریم کورٹ کے اختیار میں کمی؟
درخواست گزاروں کے مطابق ترمیم کے بعد قائم ہونے والی یہ عدالت سپریم کورٹ کے اختیارات پر “عملاً حاوی” ہو گئی ہے، کیونکہ کچھ ایسے آئینی معاملات جو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتے تھے، اب نئے فورم کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔ یہ عمل اختیارات کی تقسیم کو غیر متوازن کر دیتا ہے۔
4. اپیل کی منتقلی بھی اسی وجہ سے غیر قانونی
ججوں نے مؤقف دیا کہ چونکہ 27ویں آئینی ترمیم بذاتِ خود آئینی تنازع کا شکار ہے، اس لیے اس کی بنیاد پر اپیل کو نئی عدالت میں منتقل کرنا بھی غیر موثر ہے۔
184(3) کے تحت براہِ راست سپریم کورٹ سے رجوع — اور پھر روکا جانا
گزشتہ ہفتے ان پانچ ججوں میں سے چار ججوں — جسٹس کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفت — نے آرٹیکل 184(3) کے تحت براہِ راست سپریم کورٹ میں 27ویں ترمیم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنا ڈرافٹ سپریم کورٹ کی رجسٹری میں جمع بھی کرانے کی کوشش کی، مگر سپریم کورٹ نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور ہدایت کی کہ معاملے کو وفاقی آئینی عدالت میں اٹھایا جائے۔
اسی ڈرافٹ میں ججوں نے آرٹیکل 200 میں کی گئی ترمیم کو بھی چیلنج کیا تھا، جس کے تحت ہائی کورٹ کے جج بغیر رضامندی کے ٹرانسفر کیے جا سکتے ہیں — ایک ایسا اقدام جو ان کے مطابق عدلیہ کو دباؤ اور ممکنہ انتقامی اقدامات کے خطرے سے دوچار کرتا ہے۔
بڑے آئینی سوالات: کیا عدالت اپنا ہی جواز سنے گی؟
اب یہ معاملہ خود اسی عدالت کے سامنے ہے جس کا قیام اور اختیار ہی ججوں نے چیلنج کر رکھا ہے۔ آئینی ماہرین اسے ملک کی عدالتی تاریخ کا انتہائی منفرد اور حساس لمحہ قرار دے رہے ہیں۔
وفاقی آئینی عدالت کو پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ:
کیا 27ویں آئینی ترمیم کا قیام آئینی طور پر درست ہے؟
اگر ترمیم ہی متنازع ہے تو کیا اپیل کی منتقلی قانونی طور پر برقرار رہ سکتی ہے؟
کیا یہ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ کو واپس بھیج دیا جائے؟
اگر عدالت اس ترمیم کو متنازع قرار دیتی ہے تو:
وفاقی آئینی عدالت کے وجود
اس کے تمام زیرِ سماعت مقدمات
اور اس کے اختیارات
سب پر سوال اٹھ جائے گا۔
اور اگر عدالت اپنا اختیار برقرار رکھتی ہے تو یہ فیصلہ ملک میں عدالتی نظام کے مستقبل کے لیے نہایت اہمیت اختیار کر جائے گا۔
قانونی ماہرین کا تجزیہ: عدالتی آزادی، ریاستی اختیارات اور ترمیمی قوت کا امتحان
ماہرین کے مطابق یہ معاملہ آئین کی بنیادی ساخت کے نظریے، عدلیہ کی آزادی، اور پارلیمنٹ کی ترمیمی طاقت کے درمیان توازن کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
اگر ججوں کے اعتراضات درست ثابت ہوتے ہیں تو پاکستان کی آئینی تاریخ میں پارلیمنٹ کی ترمیمی قوت پر ایک اہم حد مقرر ہوسکتی ہے۔
اور اگر وفاقی آئینی عدالت کو آئینی قرار دیا جاتا ہے تو سپریم کورٹ کے روایتی اختیارات کی نئی تعریف سامنے آسکتی ہے۔
نتیجہ
24 نومبر کی سماعت اس تاریخی مقدمے میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتی ہے — ایک ایسا مقدمہ جو نہ صرف ججز ٹرانسفر کیس بلکہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے، عدلیہ کی آزادی اور سپریم کورٹ کے مستقبل کا رخ بھی متعین کر سکتا ہے۔



