
رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز
اسلام آباد: پاکستان میں روایتی بینکوں کے مقابلے میں اسلامک بینکنگ پر صارفین کا اعتماد مسلسل بڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں اسلامی مالیاتی اداروں کے اثاثوں اور منافع میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے مجموعی بینکنگ صارفین میں سے 24 فیصد اب اسلامک بینکنگ کی خدمات حاصل کر رہے ہیں، جبکہ اس شعبے کے مجموعی اثاثے 11 ہزار 510 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں — جو ملکی بینکاری کے ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
2028 تک ربا کے خاتمے کا ہدف — قانونی اور آئینی پیش رفت
پاکستان میں اسلامک بینکنگ کے فروغ نے سنجیدہ صورت اُس وقت اختیار کی جب وفاقی شرعی عدالت نے اپریل 2022 میں سودی نظام کو خلافِ شریعت قرار دیتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ 31 دسمبر 2027 تک ربا کے خاتمے کے لیے قانونی اقدامات کرے۔
بعد ازاں 2024 میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 38-ایف میں واضح طور پر یہ شرط شامل کی گئی کہ یکم جنوری 2028 سے ملک میں سود کو مکمل طور پر ختم کرنا لازم ہوگا۔ یوں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ اب آئینی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
اس آئینی ذمہ داری کے تناظر میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اپنا طویل مدتی روڈ میپ پیش کرتے ہوئے 2028 تک پورے بینکاری نظام کو ’ربا فری‘ بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
پاکستان میں اسلامک بینکنگ کی موجودہ صورتحال
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 22 اسلامی بینکاری ادارے کام کر رہے ہیں جن میں شامل ہیں:
6 مکمل اسلامی بینک
16 روایتی بینک جن کی اسلامی شاخیں (Islamic Windows) فعال ہیں
پاکستان اسلامی مالیاتی خدمات کے حجم اور رفتار کے اعتبار سے دنیا کے چند نمایاں ممالک میں شمار ہونے لگا ہے۔
اسلامک بینکنگ کیسے کام کرتی ہے؟ — شریعہ بورڈ، نفع و نقصان اور ریگولیشن
’تمام مصنوعات شریعت کے مطابق پیش کی جاتی ہیں‘ — سید محمد طالب رضوی
بینکنگ شعبے میں 27 سالہ تجربہ رکھنے والے اور بینک آف پنجاب کے سابق صدر سید محمد طالب رضوی کے مطابق پاکستان میں اسلامک بینکنگ کو بنیادی طور پر ’شریعہ کمپلائنٹ بینکنگ‘ کہا جاتا ہے جس میں ہر بینک کا اپنا ایک شریعہ بورڈ ہوتا ہے۔ یہ بورڈ فقہی اصولوں، مالیاتی ماہرین اور مفتیان کرام پر مشتمل ہوتا ہے، جسے اسٹیٹ بینک ریگولیٹ کرتا ہے۔
طالب رضوی کے مطابق:
بینک کی ہر پروڈکٹ شریعہ بورڈ کی منظوری کے بعد ہی صارفین تک پہنچتی ہے
اسلامک بینکنگ ربا فری ہوتی ہے اور نفع و نقصان کی بنیاد پر چلتی ہے
صارفین کو ملنے والا منافع اگرچہ روایتی بینکنگ کے قریب ہوتا ہے، تاہم اسے سود نہیں کہا جا سکتا
سروسز کے معیار میں روایتی اور اسلامی بینکوں میں کوئی فرق نہیں
ان کے مطابق ملک میں 24 فیصد بینک صارفین کا اسلامک بینکنگ کو اپنانا اس شعبے کے پھیلاؤ کی بڑی دلیل ہے۔
2028 کی ڈیڈ لائن پر شکوک — ’ربا مکمل ختم ہونا آسان نہیں‘
طالب رضوی کا خیال ہے کہ اگرچہ ہدف مقرر کیا گیا ہے، لیکن ممکن ہے کہ مقررہ مدت کے بعد بھی کچھ عرصہ ربا مکمل طور پر ختم نہ ہو سکے۔ تاہم اسٹیٹ بینک اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے اور صورتحال آئندہ برسوں میں واضح ہوگی۔
ماہرین کی آراء — کیا اسلامک بینکنگ واقعی سود سے پاک ہے؟
’صرف ڈاکیومینٹیشن بدلتی ہے، شرح نہیں‘ — ڈاکٹر اکرام الحق
سینیئر ماہرِ معاشیات ڈاکٹر اکرام الحق نے اسلامک بینکنگ کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ عام صارفین کے مطابق:
’’اسلامک بینکنگ میں وہی سود اور فکس ریٹس ہوتے ہیں، صرف ڈاکیومینٹیشن تبدیل کر دی جاتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ:
ربا صرف بینکوں تک محدود نہیں بلکہ کئی حکومتی محکموں میں بھی موجود ہے
مکمل ربا فری نظام تب ہی ممکن ہے جب پورے مالیاتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی ہو
آئین میں شق شامل کرنا کافی نہیں، عملی اقدامات زیادہ اہم ہیں
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو خود مثال قائم کرنا ہوگی تاکہ دیگر ادارے بھی اس سمت میں پیش رفت کر سکیں۔
’عالمی نظام سے مکمل علیحدگی ممکن نہیں‘ — ہارون شریف
سابق وزیرِ مملکت اور سینیئر معاشی تجزیہ کار ہارون شریف کے مطابق دنیا میں ethically-driven banking موجود ہے، جہاں صارفین مخصوص سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان سمیت کوئی بھی ملک عالمی مالیاتی نظام سے مکمل طور پر الگ نہیں ہو سکتا۔
ان کے مطابق:
اسلامی بینکاری اصولاً asset-backed ہوتی ہے
ہر لین دین کے پیچھے حقیقی اثاثہ ہونا چاہیے
لیکن عملی طور پر دنیا کا مالیاتی نظام سود پر مبنی ہے
اسی لیے پاکستان ہائبرڈ ماڈل کے تحت اپنا نظام چلا رہا ہے تاکہ عالمی مارکیٹ سے جڑا رہ سکے
اسلامک بینکنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجوہات
ماہرین کے مطابق پاکستان میں اسلامی بینکاری کے فروغ کی اہم وجوہات کچھ یوں ہیں:
شرعی اصولوں کے مطابق مالی خدمات کا فروغ
حکومتی اور آئینی سطح پر ربا کے خاتمے کی مہم
عوام میں حلال آمدن اور شریعہ کمپلائنٹ مالیاتی مصنوعات کی بڑھتی آگاہی
اسلامک بینکوں کی بہتر برانچ نیٹ ورکنگ اور سروسز
روایتی بینکوں کے مقابلے میں نسبتاً بہتر مصنوعات اور منافع کے منصوبے
آگے کا منظرنامہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو اسلامک بینکنگ آنے والے چند برسوں میں پاکستان کے مالیاتی ڈھانچے میں غالب حیثیت اختیار کر سکتی ہے۔ تاہم 2028 تک مکمل ربا فری نظام کا حصول ایک بڑا چیلنج ہے، جس کے لیے:
وسیع قانونی اصلاحات
مالیاتی اداروں کی تنظیم نو
عالمی مارکیٹ کے ساتھ ہم آہنگی
اور اسٹیٹ بینک کی مضبوط ریگولیشن
لازمی قرار پائے گی۔



