یورپاہم خبریں

یورپ امریکی یوکرین منصوبے کے حساس نکات سے اختلاف کر رہا ہے، یوکرین کی خودمختاری ’ناقابلِ سمجھوتہ‘ — فریڈرش میرس

جنیوا میں جاری مذاکرات شدید دباؤ اور غیر معمولی حساسیت کا شکار ہیں، کیونکہ یہ معاملہ پورے یورپی براعظم کی سیکورٹی کے لیے ’’گہرے خطرے‘‘ کا باعث بن چکا ہے

برلن / جنیوا: جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے انکشاف کیا ہے کہ یورپ امریکہ کے اس متنازعہ 28 نکاتی منصوبے کے تمام نکات کی حمایت نہیں کر سکتا، جس کا مقصد یوکرین—روس جنگ میں ممکنہ فریم ورک تیار کرنا ہے۔ میرس کے مطابق یورپ کے لیے سب سے اہم نکتہ یوکرین کی مکمل خودمختاری کا تحفظ ہے، جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

ایک خصوصی گفتگو میں انہوں نے واضح کیا کہ جنیوا میں جاری مذاکرات شدید دباؤ اور غیر معمولی حساسیت کا شکار ہیں، کیونکہ یہ معاملہ پورے یورپی براعظم کی سیکورٹی کے لیے ’’گہرے خطرے‘‘ کا باعث بن چکا ہے۔


امریکی 28 نکاتی منصوبہ — یورپ اور یوکرین کی شدید تشویش

امریکہ کی جانب سے جنیوا مذاکرات میں پیش کردہ مسودہ مبینہ طور پر یوکرین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ:

  • روس کے حق میں اپنے بڑے علاقوں سے دستبردار ہو

  • اپنی مسلح افواج کے حجم کو نمایاں حد تک کم کرے

  • متعدد اسٹریٹجک دفاعی سرگرمیوں کو محدود کرے

  • اپنی نیٹو حکمتِ عملی میں تبدیلیاں لائے

یوکرین اور اس کے یورپی اتحادیوں نے اس منصوبے کو فوری طور پر مسترد کر دیا ہے، اسے ’غیر حقیقی‘ اور ’یوکرین کی ریاستی خودمختاری کے منافی‘ قرار دیتے ہوئے۔

چانسلر میرس کے مطابق:

"ہماری پوزیشن بالکل واضح ہے۔ یوکرین کی خودمختاری پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ نہ ہی اسے کسی ڈیل کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔‘‘


ٹرمپ کی جمعرات کی ڈیڈ لائن ’غیر حقیقت پسندانہ‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چاہا ہے کہ اس منصوبے کے اہم نکات پر جمعرات تک اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
تاہم فریڈرش میرس اس ڈیڈ لائن کو ناممکن قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا:

’’میرے خیال میں یہ ممکن نہیں کہ 28 کے 28 نکات پر جمعرات تک اتفاق ہو سکے۔ یہ انتہائی پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے۔‘‘

اس کے باوجود میرس نے تصدیق کی کہ یورپ ’’ایک عبوری یا درمیانی پیش رفت‘‘ کی کوشش کر رہا ہے تاکہ مذاکراتی عمل قائم رہے اور مکمل تعطل سے بچا جا سکے۔


یورپ کی ترجیحات — ایک ’چھوٹا، قابلِ عمل قدم‘

میرس کے مطابق یورپی یونین امریکی منصوبے کے تمام نکات کو قبول نہیں کرے گی، تاہم وہ چند عملی نکات پر پیش رفت کا ارادہ رکھتی ہے، بشرطیکہ:

  • یوکرین کے مفادات محفوظ رہیں

  • کسی بھی قسم کی علاقائی تقسیم یا کمزور حکمرانی پر مجبور نہ کیا جائے

  • روس پر بین الاقوامی دباؤ برقرار رہے

انہوں نے کہا:

’’یورپ کے پاس اس منصوبے کے کلیدی حصوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ فیصلہ ہماری شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘


روس کے منجمد اثاثوں کا معاملہ — ’برسلز کے اثاثے امریکیوں کو نہیں دیے جا سکتے‘

مذاکرات کے دوران سامنے آنے والا ایک اہم نقطہ روس کے وہ مالی اثاثے ہیں جو یورپ کے بینکوں خصوصاً برسلز میں منجمد حالت میں موجود ہیں۔
امریکہ ان اثاثوں کے استعمال یا منتقلی کے مختلف آپشن تجویز کر رہا ہے۔

تاہم میرس نے واضح کہا:

’’یہ ناقابلِ تصور ہے کہ یورپ اپنے بینکوں میں موجود روسی اثاثے امریکی حکومت کے حوالے کر دے۔‘‘

انہوں نے زور دیا کہ اگر کوئی ایسا منصوبہ عملی صورت اختیار کرتا ہے، تو یورپ کی حمایت ’’لازمی‘‘ ہوگی۔


چین کا ممکنہ کردار — ماسکو پر دباؤ بڑھ سکتا ہے

فریڈرش میرس نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ حالیہ جی ٹوئنٹی اجلاس کے دوران ان کی چینی وزیراعظم کے ساتھ ایک ’’طویل ملاقات‘‘ ہوئی، جس میں افغانستان، عالمی تجارت اور یوکرین—روس جنگ پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔

ان کے مطابق:

’’چین اس پورے معاملے میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ وہ روس پر دباؤ ڈال سکتا ہے کہ جنگ بندی کے لیے عملی قدم اٹھائے۔‘‘

یاد رہے کہ چین اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا اسٹریٹجک تعاون مغربی ممالک کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے، لیکن چین پر یہ امید بھی پائی جاتی ہے کہ وہ ماسکو کو جنگ کے خاتمے کی طرف دھکیل سکتا ہے۔


’یہ جنگ یورپ کے دل میں عدم استحکام پیدا کر رہی ہے‘

چانسلر میرس نے تنبیہ کی کہ یوکرین پر حملے کو تقریباً چار سال ہو چکے ہیں، اور یہ جنگ یورپ کی سلامتی، توانائی ڈھانچے، سائبر سکیورٹی اور سیاسی نظام کے لیے ایک ’’گہرا اور مستقل خطرہ‘‘ بن چکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یورپ اب:

  • بار بار توانائی انفراسٹرکچر پر حملے

  • بڑے پیمانے پر سائبر حملے

  • غلط معلومات اور پراپیگنڈا

  • سرحدی علاقوں میں ملٹری دباؤ

جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔

’’یہ جنگ پورے یورپی براعظم کے سیاسی نظام کے لیے گہرا خطرہ بن چکی ہے، اسی لیے ہم اس میں پوری سنجیدگی کے ساتھ شامل ہیں۔‘‘


امید اور امکان — ’دورے سے پہلے جنگ بندی کی امید ہے‘

جرمن چانسلر نے کہا کہ وہ اگلے سال جب چین کے سرکاری دورے پر جائیں گے تو امید ہے کہ اس سے پہلے کم از کم ایک جنگ بندی تک پہنچا جا سکے۔

انہوں نے کہا:

’’ہمیں امید ہے کہ ازسرِنو ڈپلومیسی کارگر ثابت ہوگی۔ یورپ کسی ایسے منصوبے کا حصہ نہیں بنے گا جو یوکرین کی ریاستی سالمیت پر سمجھوتہ کرے۔‘‘


نتیجہ

یورپ، امریکہ اور یوکرین کے درمیان جاری یہ مذاکرات عالمی سیاست کا ایک اہم موڑ ہیں۔
جرمنی کا موقف واضح ہے:

  • یوکرین کی خودمختاری غیر متنازعہ ہے

  • امریکی منصوبے کے کئی نکات قابلِ قبول نہیں

  • روس کے منجمد اثاثوں پر یورپ کا مکمل اختیار رہے گا

  • ٹرمپ کی ڈیڈ لائن عملی نہیں ہے

  • چین کردار ادا کر سکتا ہے

آنے والے چند روز — خصوصاً جمعرات تک — یورپ، امریکہ اور یوکرین کی سفارت کاری کی سمت کا تعین کریں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button