
پاکستان نے افغانستان میں فضائی حملے کیے، ذبیح اللہ مجاہد کا دعویٰ
حالیہ برسوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات متعدد بار کشیدگی کا شکار ہوئے، اور اس کشیدگی کا بنیادی نکتہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) رہی ہے۔
کابل: افغانستان کی عبوری طالبان حکومت نے پاکستان پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے گزشتہ شب افغانستان کے مشرقی صوبوں میں فضائی حملے کیے جن کے نتیجے میں کم از کم 10 شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے الزام لگایا ہے کہ یہ حملے خوست، کنڑ اور پکتیکا میں کیے گئے، تاہم پاکستان نے اب تک ان الزامات پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا۔
طالبان کا دعویٰ: خوست میں گھر پر بمباری، 10 ہلاک
منگل کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر جاری کیے گئے بیان میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستانی فوج نے خوست کے ضلع گربزو کے علاقے مغلگے میں ایک مقامی شہری کے گھر کو نشانہ بنایا۔
ترجمان کے مطابق:
“گزشتہ رات تقریباً 12 بجے پاکستانی فوج نے ولایت خان ولد قاضی میر کے گھر پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں نو بچے اور ایک خاتون ہلاک ہوگئے۔”
ذبیح اللہ مجاہد نے مزید بتایا کہ کنڑ اور پکتیکا کے سرحدی علاقوں میں کیے گئے فضائی حملوں میں چار شہری زخمی ہوئے۔
پشاور خودکش حملے کے بعد تناؤ میں اضافہ
افغان حکومت کا یہ دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک روز قبل پیر کو پشاور میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پر تین خودکش حملہ آوروں نے حملہ کیا تھا۔ اس واقعے میں تین اہلکار جان سے گئے جبکہ کم از کم 9 افراد زخمی ہوئے، جن میں سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔ جوابی کارروائی میں تینوں حملہ آور بھی مارے گئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی، تاہم پاکستان ایسے حملوں کا پس منظر اکثر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے جوڑتا رہا ہے۔
دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کی اصل وجہ
حالیہ برسوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات متعدد بار کشیدگی کا شکار ہوئے، اور اس کشیدگی کا بنیادی نکتہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) رہی ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے سرحد پار حملے کرتے ہیں، جبکہ طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان نے بارہا کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرے.
اکتوبر میں سرحدی جھڑپیں اور جنگ بندی
اکتوبر میں دونوں ممالک کی سرحد پر جھڑپوں میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
بعدازاں قطر کی ثالثی میں دونوں ممالک نے جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے باوجود خطے میں امن کے لیے کیے گئے مذاکرات، خصوصاً ترکی میں ہونے والی بات چیت، شدت پسند گروہوں کے معاملے پر اختلافات کے باعث کسی طویل المدتی معاہدے کے بغیر ختم ہوگئے۔
خطے میں بڑھتی بے یقینی
تجزیہ کاروں کے مطابق تازہ الزامات اور ممکنہ جوابی بیانات سے پاکستان۔افغان تعلقات میں مزید سختی آ سکتی ہے۔ سرحدی سلامتی، ٹی ٹی پی کی موجودگی اور باہمی اعتماد کی کمی وہ عناصر ہیں جو دونوں ممالک کے روابط کو مستقل دباؤ میں رکھے ہوئے ہیں۔
افغان حکومت کے الزامات اور پاکستان کی جانب سے ممکنہ ردعمل خطے میں عسکری اور سیاسی صورتحال پر اہم اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔



