
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
اسلام آباد میں منعقد ہونے والی "پاکستان پاپولیشن سمٹ 2025” کے افتتاحی روز وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات، سینیٹر محمد اورنگزیب نے اہم خطاب کیا اور پاکستان کی معیشت کے مستقبل سے متعلق کئی کلیدی مسائل پر روشنی ڈالی۔ وزیر نے موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں اضافے کو ملک کے لیے سب سے بڑے چیلنج قرار دیا اور کہا کہ ان مسائل کو حل کیے بغیر پاکستان کی طویل مدتی اقتصادی صلاحیت کو فعال نہیں کیا جا سکتا۔
موسمیاتی تبدیلی اور آبادی کے چیلنجز
سینیٹر اورنگزیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور آبادی میں تیزی سے اضافہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے سنگین رکاوٹیں ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت اقتصادی بحالی اور استحکام سے ترقی کی جانب منتقلی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، لیکن ان بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر ملک کی اقتصادی ترقی ممکن نہیں۔ سینیٹر نے مزید کہا، "مختلف عالمی مطالعات میں پاکستان کو 2047 تک تین ٹریلین ڈالر کی معیشت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، لیکن اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے موسمیاتی اور آبادی کے چیلنجز کو مؤثر طریقے سے حل کرنا ہوگا۔”
آبادی کے انتظام پر توجہ کی ضرورت
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان طویل عرصے سے آبادی کے چیلنجز کو سمجھتا ہے اور اب وقت آ چکا ہے کہ اس مسئلے پر عملی اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ "اب ہمیں اس پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر توجہ دینی ہے۔” وزیر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ موسمیاتی فنانسنگ کے عالمی اقدامات کے ساتھ ساتھ آبادی کے انتظام کے حوالے سے پاکستان کی پالیسیوں میں بھی اسی سطح کی سنجیدگی کی ضرورت ہے۔
مذہبی رہنماؤں کا کردار
وزیر خزانہ نے آبادی کے انتظام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مذہبی سکالرز کے کردار کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ "پاکستان میں مذہبی رہنماؤں کا تعاون اہم ہے، کیونکہ ان کی آواز عوام کے درمیان معتبر ہے اور وہ آبادی کے انتظام کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔” وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اس معاملے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ شواہد پر مبنی رہنمائی اور متفقہ آوازیں اب موجود ہیں۔
موسمیاتی اثرات اور اقتصادی نقصان
سینیٹر اورنگزیب نے موسمیاتی اثرات کو اقتصادی ترقی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا، اور بتایا کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 0.5 فیصد کی کمی متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ "موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پہلے ہی معاشی ترقی کو متاثر کر رہے ہیں اور اگر آبادی کا دباؤ اسی طرح بڑھتا رہا تو یہ ترقی کے فوائد کو مٹائے گا۔”
نوجوانوں کی اہمیت
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کا انحصار نوجوانوں کی قوت پر ہے، جو آبادی کا 64 فیصد ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک کی معیشت کا مستقبل فری لانسرز، آئی ٹی پروفیشنلز، اور نوجوان اختراعیوں کے ہاتھ میں ہے۔ وزیر نے خاص طور پر ڈیجیٹل معیشت کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر AI، blockchain اور Web 3.0 جیسے جدید ٹیکنالوجیز میں مزید پیشرفت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ان ٹیکنالوجیز میں پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی شرکت کو ایک اچھا اشارہ قرار دیا اور کہا کہ حکومت کو ایک ایسا ریگولیٹری ماحول فراہم کرنا چاہیے جو نوجوانوں کے ڈیجیٹل ٹیلنٹ کو تحفظ فراہم کرے۔
سٹنٹنگ اور سیکھنے کی غربت
سینیٹر اورنگزیب نے پاکستان میں بچوں کے اسٹنٹنگ کے مسئلے کو اجاگر کیا، جس کا شکار 40 فیصد پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہیں۔ انہوں نے اسے "فکری غربت” قرار دیا، جو کہ ملک کی افرادی قوت اور قیادت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ سیکھنے کی غربت کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے، کیونکہ خواتین کی افرادی قوت میں شرکت معاشی ترقی کا ایک ثابت محرک ہے۔
شہری برادریوں میں مسائل
سینیٹر نے بڑھتی ہوئی شہری کاری اور شہری غریب برادریوں کے مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی، جہاں پانی اور صفائی کے مسائل اسٹنٹنگ میں معاون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کا حل مختلف شعبوں میں جامع اقدامات سے ممکن ہے، جن میں پیدائش میں وقفہ، بہتر غذائیت، صفائی ستھرائی، اور صاف پانی کی فراہمی شامل ہیں۔
موسمیاتی اور آبادی کے انتظام کی فنانسنگ
سینیٹر اورنگزیب نے موسمیاتی اور آبادی کے انتظام کی فنانسنگ پر بات کرتے ہوئے عالمی بینک کے ساتھ پاکستان کے کثیرالجہتی تعاون کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک نے پاکستان کے لیے دو ارب ڈالر کے سالانہ وعدے کے تحت کئی اہم منصوبوں کی فنانسنگ کی ہے، جن میں بچوں کی نشوونما، سیکھنے کی غربت اور موسمیاتی تبدیلی کی لچک شامل ہیں۔ وزیر نے کہا کہ اب یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سپورٹ کو مکمل طور پر استعمال کرنے کے لیے قابل سرمایہ کاری اور بینک کے قابل منصوبے تیار کرے۔
خود انحصاری کی اہمیت
سینیٹر اورنگزیب نے خود انحصاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار بار بین الاقوامی امداد کی اپیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی ہر چیلنج کے لیے قرضہ لے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سیلاب کی امدادی کارروائیوں کے لیے بیرونی امداد کے بغیر وسائل فراہم کیے ہیں، جس سے پاکستان کی خود انحصاری کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور سوشل امپیکٹ فنانسنگ
وزیر خزانہ نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ مستقبل کی فنانسنگ صرف اخراجات پر نظر رکھنے کے بجائے نتائج سے جڑی ہونی چاہیے۔ انہوں نے سوشل امپیکٹ فنانسنگ فریم ورک اور پاکستان سکلز امپیکٹ بانڈ جیسے اقدامات کی اہمیت پر زور دیا، جو خاص طور پر نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے اہم ہیں۔ وزیر نے برٹش ایشین ٹرسٹ اور ٹیکنالوجی کے تعاون کا بھی شکریہ ادا کیا۔
نتیجہ:
سینیٹر محمد اورنگزیب نے اپنے خطاب میں پاکستان کے اقتصادی، موسمیاتی، اور آبادی کے چیلنجز کو حل کرنے کے لیے جامع اور مؤثر حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جدید ٹیکنالوجیز کی سمت میں اقدامات کرنا ہوں گے، اور اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اور آبادی کے مسائل پر مؤثر فنانسنگ اور پالیسی کے ذریعے قابو پانا ہوگا۔



