
تاجکستان نے افغان سرحد کی حفاظت کے لیے روسی مدد کی تجویز مسترد کر دی
"ریاستی سرحد کی صورتحال مستحکم ہے اور اس پر متعلقہ اداروں کا مکمل کنٹرول ہے۔"
دوشنبہ: تاجکستان نے بدھ کو یہ بات واضح کر دی کہ اسے افغانستان کے ساتھ اپنی غیر مستحکم سرحد کی حفاظت کے لیے روسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ کے دوران سرحد پار سے مسلح جنگجوؤں کی جانب سے ہونے والے حملوں میں پانچ چینی مزدور ہلاک ہو گئے تھے، جس نے تاجکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔
تاجکستان کی وزارتِ خارجہ نے ماسکو کی جانب سے سرحد کی نگرانی کے لیے فوجیں تعینات کرنے کے بارے میں حالیہ خبروں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ "ریاستی سرحد کی صورتحال مستحکم ہے اور اس پر متعلقہ اداروں کا مکمل کنٹرول ہے۔” وزارتِ خارجہ نے مزید کہا کہ سرحد کی حفاظت کے لیے کوئی بیرونی فوجی مدد درکار نہیں ہے، اور یہ ذمہ داری تاجکستان کی ملکی فورسز کے ہاتھ میں ہے۔
افغان سرحد کی پیچیدہ صورتحال
تاجکستان کی سرحد افغانستان کے ساتھ تقریباً 1,400 کلومیٹر طویل ہے اور یہ ملک تاریخی طور پر افغانستان کے حالات سے براہ راست متاثر رہا ہے۔ گزشتہ برس طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد سے تاجکستان کو انتہاپسندانہ تشدد کے بڑھنے کا خطرہ درپیش رہا ہے۔ اسی دوران سرحدی علاقوں میں حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے تاجکستان میں سکیورٹی کے حوالے سے شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔
گزشتہ ماہ جب سرحد پار مسلح حملے ہوئے، جن میں پانچ چینی مزدور ہلاک ہو گئے، تو یہ حملے تاجکستان کے لیے ایک اہم سکیورٹی مسئلہ بن گئے تھے۔ تاحال نہ تو تاجکستان اور نہ ہی افغانستان نے ان حملوں میں ملوث گروپوں یا افراد کی شناخت کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ تاجکستان نے ان حملوں کو "مسلح دہشت گرد گروپ کے ارکان” کا کام قرار دیا ہے، جبکہ افغانستان کے طالبان حکام نے اس حملے کو "افراتفری پیدا کرنے والے عناصر” کا کام قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔
روس سے ممکنہ فوجی مدد کا انکار
تاجکستان نے اس سے قبل روسی فوجی امداد کے امکان کے بارے میں آنے والی اطلاعات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ تاجکستان کے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور سکیورٹی کا مکمل کنٹرول تاجکستان کی سکیورٹی فورسز کے پاس ہے، اور کسی بیرونی فوجی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ بیان اس وقت آیا ہے جب روس کی طرف سے اس علاقے میں اپنی فوجی موجودگی بڑھانے کی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ روس نے گزشتہ دہائیوں میں تاجکستان کے ساتھ دفاعی تعاون میں اضافہ کیا ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعلقات مضبوط ہیں۔ تاہم، تاجکستان نے واضح کیا کہ وہ روسی فوجی مداخلت کی مخالفت کرتا ہے اور سرحدی سکیورٹی کے لیے خود مختار حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہے۔
چینی مزدوروں کی ہلاکت اور معاشی اثرات
تاجکستان میں موجود چینی مزدوروں کی ہلاکت نے ملک کی معیشت پر بھی اثر ڈالا ہے۔ چینی مزدور اکثر تاجکستان میں بیجنگ کے انفراسٹرکچر منصوبوں اور کان کنی کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ یہ مزدور تاجکستان کی معیشت کے لیے نہ صرف ضروری ہیں بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کی بنیاد بھی ہیں۔ چینی حکام نے اس واقعے کے بعد تاجکستان سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا اور اس بات کو یقینی بنانے کی درخواست کی تھی کہ مستقبل میں ایسی خونریز وارداتوں کو روکا جائے۔
تاجکستان کی سکیورٹی صورتحال
تاجکستان، جو سابق سوویت یونین کے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے خود کو انتہاپسندانہ تشدد اور سکیورٹی کی بڑھتی ہوئی پریشانیوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاجکستان کی سکیورٹی فورسز کو اپنی سرحدوں پر بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خدشات ہیں، خاص طور پر افغان سرحد کے قریب واقع علاقوں میں جہاں طالبان کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔
مسلم اکثریتی ملک کی سکیورٹی پالیسیاں
تاجکستان کی حکومت نے طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد اپنی سکیورٹی پالیسیوں کو مزید سخت کیا ہے اور اپنے فوجی اور سکیورٹی اداروں کو سرحدی علاقوں میں مزید فعال کر دیا ہے۔ تاجکستان میں کئی حساس علاقے ہیں جہاں سرحد پار سے دہشت گردوں کے حملے کی امکانات ہمیشہ موجود رہتی ہیں، جس سے ملک کی داخلی سکیورٹی پر دباؤ آتا ہے۔
نتیجہ
تاجکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے روسی فوجی امداد کی درخواست کو مسترد کیے جانے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ تاجکستان اپنی سکیورٹی کو خود سنبھالنے کے عزم پر قائم ہے۔ تاہم، ملک کو افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدوں پر سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے اور دہشت گرد گروپوں کی موجودگی نے علاقائی سکیورٹی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ تاجکستان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ داخلی سکیورٹی فورسز کو مضبوط بنائے اور کسی بھی بیرونی فوجی مداخلت سے گریز کرے۔



