
ناصف اعوان-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
شاندار شہر کراچی کی سڑکوں پر جہاں زندگی ہر پل رواں دواں رہتی ہے، وہاں ایک سنگین مسئلہ نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں ایک بے بس والد کی داستان اور اُس کی تین سالہ بچے کی المناک موت نے ایک بار پھر حکومتی نااہلی اور انتظامی غفلت کی قلعی کھول دی ہے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب نبیل اپنے بیٹے ابراہیم اور اہلیہ کے ساتھ معمول کی خریداری کے لیے نیپا چورنگی کے قریب ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور گئے تھے۔ سٹور سے باہر نکلتے ہوئے تین سالہ ابراہیم اپنی ماں اور باپ کی نظر بچا کر چند قدم دور جا پہنچا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ایک دل دہلا دینے والی حقیقت بن کر سامنے آیا۔
ابراہیم، بچہ جو بمشکل چند قدم آگے بڑھا تھا، ایک کھلے مین ہول میں گر گیا۔ ویڈیو فوٹیج میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ وہ آٹھ یا دس قدم بھی نہ چل پایا کہ اچانک اس کی چھوٹی سی جان موت کے کنویں میں جا گری۔ ابراہیم کا والد، جو چند لمحے پہلے اپنے بیٹے کے ساتھ خوشی کے لمحات گزار رہا تھا، ایک لمحے میں بے بس ہو گیا۔ ماں، جو اپنے لختِ جگر کو ڈوبتا دیکھ چکی تھی، بے ہوش ہو گئی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک اندوہناک المیہ بن کر سامنے آیا۔
کھلے مین ہولز: موت کا کنواں
کراچی کے مختلف علاقوں میں ہر سال ہزاروں کھلے مین ہولز پائے جاتے ہیں، جو شہریوں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ ان کھلے گٹرز یا مین ہولز کو مکمل طور پر بند کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ سال 2025 کے آغاز میں کراچی میں 24 افراد ان کھلے مین ہولز میں گر کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ اعداد و شمار کسی بھی حکومت یا ادارے کے لیے شرم کا باعث ہونے چاہئیں۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں کھلے مین ہولز کی موجودگی ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جس پر حکام کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں کئی بار حکومتی نمائندے اور سوشل میڈیا ٹیمیں فعال نظر آتی ہیں، لیکن ان کھلے مین ہولز کے بارے میں کسی حکومتی محکمہ یا متعلقہ ادارے کا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔
خاندانی المیہ: والدین کی اذیت
ابراہیم کی موت کے بعد نبیل اور اس کی اہلیہ کی حالت بے حد خراب ہو چکی ہے۔ بچے کی موت ایک جان لیوا صدمہ ثابت ہوئی ہے، اور والدین اب تک اس المیہ کے اثرات سے باہر نہیں آ سکے۔ بچے کا باپ نبیل اپنے دل میں ہمیشہ کے لیے یہ گِلٹ لیے جائیگا کہ کاش اس نے اپنے بیٹے کا ہاتھ نہ چھوڑا ہوتا، کاش وہ ڈیپارٹمنٹل سٹور نہ گیا ہوتا، کاش وہ کھلا مین ہول موجود نہ ہوتا، اور کاش اس کی تلاش میں حکومتی ادارے فوراً قدم اٹھاتے۔
شہریوں کی مدد کرنے والی سرکاری مشینری، جو اس واقعہ کے بعد موقع پر پہنچنے والی تھی، اس کے بجائے بے حسی اور غفلت کا شکار نظر آئی۔ بچہ گٹر میں گرنے کے بعد، نبیل اور اس کی اہلیہ نے اپنی مدد آپ کے تحت پرائیویٹ مشینری منگوائی، لیکن 15 گھنٹوں تک کسی قسم کی مدد نہ مل سکی۔
محکمۂ شہری خدمات کی ناکامی
واقعے کے بعد مختلف محکموں میں ذمہ داری کا تعین کیا گیا۔ کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کی رپورٹ میں ڈیپارٹمنٹل سٹور کو اس حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 17 نومبر کو ایک ڈمپر نے گٹر کا ڈھکن توڑ دیا تھا، جس کے بعد یہ کھلا مین ہول اب تک بدستور موجود ہے۔ اس دن کے بعد نہ تو کسی نے اس ہول کو بھرنے کی کوشش کی، اور نہ ہی ذمہ دار محکموں نے اس کی مرمت کے لیے کوئی اقدام اٹھایا۔
جب تک بچہ ڈوب چکا تھا، تب تک حکام کی جانب سے کسی بھی نوعیت کی فوری کارروائی نہ کی گئی۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی کھلے مین ہولز کی تعداد ہزاروں میں ہے، اور ہر سال ان مین ہولز میں گِر کر شہری جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر عوام کا غصہ اور حکومتی بے حسی
اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر عوام کا غصہ بڑھتا گیا۔ کراچی کے شہریوں نے حکومتی اداروں کی بے حسی اور غفلت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ پیپلز پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیمیں میئر کراچی کے حق میں ٹرینڈ چلا کر داد وصول کر رہی تھیں، جبکہ حقیقت میں عوامی غصہ بڑھتا گیا۔
اس نوعیت کے واقعات نے عوامی اعتماد کو مزید کمزور کیا ہے اور حکومتی اداروں کی ساکھ پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
آنے والی نسلوں کے لیے سنگین سبق
اس المناک واقعے نے ایک اور حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں انتظامی ناکامی کی وجہ سے عوام کو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کھلے مین ہولز نہ صرف شہریوں کی جان کے لیے خطرہ ہیں، بلکہ یہ ایک عذاب بن چکے ہیں جس کا خاتمہ کرنا حکومت کی ذمہ داری بنتا ہے۔ تاہم، حکومتی بے حسی اور غفلت سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ مزید سنگین ہو جائے گا۔
کراچی کے شہریوں کو اس واقعہ سے ایک گہرا سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ حکومتی اداروں اور حکمرانوں سے صرف امیدیں نہیں، بلکہ جواب دہی بھی ہونی چاہیے۔ اس واقعے نے یہ ثابت کر دیا کہ عوامی مسائل کو حل کرنے کی بجائے حکومتی ادارے صرف الزام تراشیوں اور سرکاری محکموں کی آپسی لڑائیوں میں مگن ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
ابراہیم کی موت، کراچی کے عوام کے لیے ایک پیغام ہے
ابراہیم کی موت، جو ایک کھلے مین ہول میں گری، دراصل کراچی کے شہریوں کے لیے ایک پیغام بن چکی ہے۔ یہ پیغام ہے کہ شہر میں حکومتی سطح پر فوری اور مؤثر اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ اس طرح کے حادثات کا تدارک کیا جا سکے۔ ابراہیم کے والدین کا دکھ اور اس واقعے کی گہرائی کسی بھی ضمیر والے شخص کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ جب تک حکام اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتے، تب تک کراچی کے شہری اسی طرح خوف اور بے بسی کا شکار رہیں گے۔
کراچی میں کھلے مین ہولز: موت کا مسلسل رقص
کراچی میں کھلے مین ہولز کا مسئلہ مسلسل موت کا رقص کر رہا ہے، اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والی کہانی بن چکا ہے۔ ہر سال کئی لوگ ان مین ہولز کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے حکومت اور ادارے اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ واقعہ ایک اور گواہی ہے کہ کراچی میں بنیادی انفراسٹرکچر اور انتظامی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔








