ویلڈن رمیز راجہ !….علی احمد ڈھلوں
ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ2021 سر پر ہے، ہر ٹیم اٹھارہ رکنی ٹیم (حتمی15رکنی ٹیم اور 3ریزرو کھلاڑی ) کا اعلان کر رہی ہے، پاکستان نے بھی حتمی ٹیم کا اعلان گزشتہ ماہ 6ستمبر کو کردیا تھا، اسی ٹیم کو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں بھی حصہ لینا تھا لیکن یہ دونوں سیریز نہ ہو سکیں جس کے بعد یہ کھلاڑی قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں ایکشن میں نظر آئے۔ تاہم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اعلان کردہ ٹیم کے چند کھلاڑیوں کی قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں غیر تسلی بخش کارکردگی کے بعد چیف سلیکٹر محمد وسیم سخت تنقید کی زد میں آ گئے تھے۔جیسے محمد وسیم نے آصف علی ، اعظم خان اور خوشدل شاہ کو ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا تواُس وقت ان دونوں کھلاڑیوں کی کارکردگی کے بارے میں سوالات ہوئے تھے کہ کسی قابل ذکر کارکردگی کے بغیر کیسے یہ ٹیم کا حصہ بنے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان سپر لیگ 6 میں سب سے زیادہ 20 وکٹیں لینے والے فاسٹ بولر شاہنواز دھانی کو محدود اوورز کی سیریز کے لیے منتخب نہ کیے جانے پر بھی سخت حیرانی ظاہر کی گئی تھی۔راقم نے بھی گزشتہ ماہ اسی حوالے سے کالم لکھا تھا اور انہی کھلاڑیوں پر تنقید کی تھی۔ اور لکھا تھا کہ شاید رمیز راجہ اس سلیکشن سے بے خبر ہیں ورنہ وہ کبھی ایسے کھلاڑیوں کو منتخب نہ کرتے جن کی کارکردگی ماضی میں قابل رشک نہیں رہی۔
لہٰذاچیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ نے نیشنل ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کو پرکھا اور اُنہی کھلاڑیوں کی کارکردگی کو خراب پایا جن پر سخت تنقید کی جارہی تھی، لہٰذااُنہیں Replaceکر کے اعظم خان کی جگہ سابق کپتان وکٹ کیپر سرفراز احمد کو شامل کیا گیا، جبکہ دیگر 2کھلاڑیوں حیدر علی اور فخر زمان کو خوشدل شاہ اور محمد حسنین کی جگہ شامل کیا گیا۔ جبکہ صہیب مقصود جنہیں کمر درد کی وجہ سے ٹیم سے الگ ہونا پڑا کی جگہ شعیب ملک کو شامل کر لیا گیا۔ یعنی بالکل وہی ٹیم منتخب ہو گئی جسے ہر کوئی پسند کر رہا ہے۔ مثلاََبابراعظم (کپتان)، شاداب خان (نائب کپتان)، آصف علی، حیدر علی، فخر زمان، حارث رو¿ف، حسن علی، عماد وسیم، محمد حفیظ، محمد نواز، محمد رضوان (وکٹ کیپر)، محمد وسیم جونیئر، سرفراز احمد، شاہین شاہ آفریدی اور شعیب ملک۔
لہٰذاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں ادارے ہمیشہ جگ ہنسائی کا باعث کیوں بنتے ہیں؟ کیوں رمیز راجہ کے چیئرمین بننے سے 2، 3روز قبل ہی ٹیم اناﺅنس کر دی گئی، ویسے اتنی جلدی بھی کیا تھی؟ نئے چیئرمین کا اگر انتظار کر لیا جاتا تو یوں تبدیلیاں بھی شاید نہ کرنا پڑتیں۔ اور اب اگر اُس میں سے خامیاں نکل آئی ہیں تو میرے خیال میں چیف سلیکٹر کا اب یوں کرسی کے ساتھ چپکے رہنے کا کیا جواز ہے؟ اس سے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح وہ اپنے کیرئیر میں ٹیم کے ساتھ زبردستی چپکے رہے، اب وہ چیف سلیکٹرز کی سیٹ کو انجوائے کرنے کے لیے اس سیٹ کے ساتھ بھی لگے رہیں گے۔ اور پھر یہاں یہ بات بھی کہنا چاہوں گا کہ ایسے شخص سے مزید آگے جا کر اچھی اُمید کیسے کی جا سکتی ہے؟ جو شعیب ملک، فخر زمان یا سرفراز احمد کی جگہ اعظم خان، خوشدل شاہ وغیرہ کو اہمیت دے۔ یقین مانیں ہماری شعیب ملک، فخر زمان وغیرہ سے کوئی رشتے داری نہیں ہے لیکن میرٹ تو یہی بنتا ہے کہ فخر زمان نے ہمارے لیے بہترین اننگز کھیلیںاور میچز جتوائے، شعیب ملک ایک تجربہ کار بلے باز ہے، اُن کی شمولیت کے بعد اب ٹی 20 ورلڈ کپ کے لئے پاکستانی کرکٹ ٹیم کافی حد تک متوازن ہو گئی ہے۔ 441 پروفیشنل ٹی ٹوئنٹی میچز کھیل کر شعیب ملک اس فارمیٹ میں پاکستان کے سب سے زیادہ تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ شعیب ملک 11 ہزار ٹی ٹوئنٹی رنز بنانے والے پہلے ایشین کرکٹر جب کہ مجموعی طور پر دنیا کے تیسرے کرکٹر ہیں۔ اب ان سے آگے صرف کرس گیل اور کیرون پولارڈ ہی ہیں ۔ پھر سرفراز احمد کامیاب کپتان رہا ہے، چہ جائے کہ اُس کی جگہ محمد رضوان نے پکی کر لی ہے مگر اُس کا کیرئیر کیوں ختم کیا جائے؟ اُسے بطور مڈل آرڈر بیٹسمین کھلانا چاہیے، تاکہ اُس کی حق تلفی نہ ہو!
لہٰذااگر رمیز راجہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اپنی ٹیم بنائیں گے اور اُن کے آنے کے بعد کئی عہدیدار استعفیٰ بھی دے چکے ہیں تو لگے ہاتھ چیف سلیکٹر کو بھی بدل دینا چاہیے اور کوالیفائیڈ سٹاف کو بھرتی ہونا چاہیے اور پھر اہم بات یہ کہ جن کھلاڑیوں کو ٹیم سے الگ کیا گیا ہے، آخر وہ بھی پاکستان ہی کے بچے ہیں، اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی بورڈ کے پاس کوئی پروگرام ہوناچاہیے!جیسے حسنین ہمارا ٹیلنٹ ہے، اعظم خان بھی ٹیلنٹ ہے، اب وہ ٹیم سے باہر جا کر کافی ڈپریشن کا شکار ہوئے ہوں گے، اور اس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ غلط سلیکشن کمیٹی کا ہے، کہ اُن کا کیر ئیر داﺅ پر لگا دیا۔ اب اُنہیں ہمیشہ مشکوک انداز میں دیکھا اور سنا جائے گا۔ بلکہ اس کے لیے تو بورڈ کو ایک ایسا میکانیزم یا ایسا پروگرام ترتیب بنانا چاہیے، جو لانگ ٹرم کھلاڑیوں کی تربیت کرے، اُنہیں ٹیم کے لیے تیار کرتے رہیں، اُنہیں نفسیاتی طور پر تیار کرتے رہیں، اُنہیں حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتے رہیں، اُنہیں شہرت کو ہضم کرنے اور بکیوں سے بچنے کے لیے اقدامات کرنے کی ترغیب دینی چاہیے!اُنہیں برا ریکارڈ رکھنے والے کھلاڑیوں سے بھی دور رہنے کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ وہ اُن کے زیر اثر نہ آئیں،اسی تربیت کے فقدان اور غلطیوں کی وجہ سے ہم نے کئی عظیم کھلاڑیوں کو کھو دیا، جیسے شعیب اختر جیسے عظیم باﺅلر کو جتنا کھیلنا چاہیے تھا وہ نہیں کھیل سکا، اُنہیں ضائع کر دیا، پھر عبدالرزاق جیسے عظیم آل راﺅنڈر کو ہم نے ضائع کر دیا، پھر بہترین بلے باز عمران نذیر کو ہم نے ضائع کر دیا۔ فواد عالم کو ہم نے کتنی دیر ضائع کیے رکھا، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ پھر دھانی جسے ٹیم میں شامل ہونا چاہیے تھا، اُسے ریزرو کھلاڑیوں میں شامل کیا گیا ہے، پھر ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ پچھلے پی ایس ایل میں کامران اکمل نے سب سے زیادہ رنز بنائے مگر اُنہیں اُس وقت بھی قومی ٹیم میں منتخب ہی نہیں کیا گیا تھا۔ یعنی ہم جیسے جو کرکٹ سے نابلد ہیں، اُنہیں بورڈ کے ایسے اقدامات پر ہنسی آتی ہے، کہ آخر ہماری پسند نا پسند یا اقربا پروری سے کب جان چھوٹے گی۔
لہٰذارمیز راجہ کو یہ ثابت کرناچاہیے کہ وہ ایک خاندانی شخص ہیں، وہ پریکٹیکل پر یقین رکھتے ہیں، وہ جو کچھ کہتے آئے ہیں اُس پر عمل بھی کرکے دکھائیں گے، وہ یہ بھی ثابت کرکے دکھائیں گے کہ ایک پڑھے لکھے اور ان پڑھ شخص میں کیا فرق ہوسکتا ہے۔ ہم خوش ہیں، کہ نئے چیئرمین نے آکر اپنے اختیارات مثبت انداز میں استعمال کیے، انہوں نے دنیا کو باور کروایا ہے کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ نہ کھیل کر اُن کے ساتھ زیادتی کی، اسی وجہ سے انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کو مستعفی ہونا پڑا۔بلکہ رمیز راجہ نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے مسلسل میٹنگز کر رہے ہیں، کبھی ایک شعبہ تو کبھی دوسرا، کبھی مارکیٹنگ، کبھی، پی ایس ایل فرنچائز مالکان، کبھی کھلاڑیوں سے بات چیت، کبھی نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر سٹاف، کبھی ریجنل کوچز اور سلیکشن کمیٹی تو کبھی صوبائی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے مل رہے ہیں۔
پھر پاکستان کرکٹ بورڈ نے صوبائی ٹیموں کی سپانسر شپ کیلئے ”مڈل مین“ کا کرداد ختم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ احسان مانی اور وسیم خان کے دور میں صوبائی ٹیموں کی سپانسر شپ کیلئے براہ راست معاملات طے کرنے کے بجائے تیسری پارٹی کے ذریعے سپانسرز کیساتھ بات چیت کی جاتی تھی لیکن تبدیلی کے بعد یہ طریقہ کار تبدیل کرنے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ نئے چیئرمین رمیز راجہ اس پریکٹس کے حق میں نہیں ہیں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ ایجنٹس کے ذریعے سپانسرز کے حوالے سے مطلوبہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا جبکہ اس دوران شفافیت پر بھی شکوک و شبہات رہے ہیں۔ ایجنٹس یا مڈل مین کے تجربے کی ناکامی کے بعد پی سی بی اب براہ راست سپانسرز سے بات چیت کرے گا۔ محکمہ جاتی کرکٹ کے خاتمے کے بعد چھ ٹیموں کے نظام میں سپانسرز کا کردار نہایت اہم ہو چکا ہے۔ اب تمام اخراجات پاکستان کرکٹ بورڈ برداشت کرتا ہے جبکہ ماضی میں محکمہ جاتی ٹیموں کی موجودگی میں کرکٹ بورڈ پر مالی بوجھ کم پڑتا تھا لیکن چھ ٹیموں کی کرکٹ شروع ہونے کے بعد سو فیصد اخراجات پی سی بی کو اٹھانا پڑتے ہیں ان حالات میں سپانسرز کے نہ ہونے سے خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔الغرض پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے چیئرمین رمیز راجہ کرکٹ بورڈ کے ذرائع آمدن بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں اس سلسلے میں وہ مختلف کاروباری شخصیات سے بھی مل رہے ہیں۔ اس لیے اُمید کی جا سکتی ہے، کہ وہ پاکستان کو ایک اچھا سسٹم دے کر جائیںگے تاکہ پاکستان کا عالمی سطح پر چھایا یہ واحد کھیل کہیں سیاست کی بھینٹ نہ چڑھ جائے اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں۔
اور ابھی چونکہ ورلڈ کپ سر پر ہے تو اس وقت رمیز راجہ کو کھلاڑیوں کا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ ٹیم ہمیشہ مورال سے جیتتی ہے، اگر ٹیم کا مورال ڈاﺅن ہوگا تو آپ کبھی بھی نہیں جیت سکتے! اور ویسے بھی دنیا میں بہت کم ہوتا ہے کہ ہمیشہ فیورٹ ٹیم ہی ٹورنامنٹ جیتتی ہو۔ ہمیشہ جس ٹیم کا مورال بلند ہوتا ہے وہ ضرور جیت جاتی ہے، جیسے 1975ءاور 1979ء میں ویسٹ انڈیز کے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے بارے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ورلڈ کپ جیت جائے گی مگر وہ بہت اچھا کھیلی، ٹیم کمبی نیشن کے ساتھ کھیلی اور جیت گئی۔ پھر ہمارا 92کا ورلڈ کپ، آسٹریلیا کا 1999کا ورلڈ کپ، انڈیا کا 1983اور 2011ءکا ورلڈ کپ، ہم سب کے سامنے ہے۔ پھر یونس خان نے پاکستان کو ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جتایا تھا، ہم فیورٹ نہیں تھے، لیکن مورال بلند ہونے کی وجہ سے ہم جیت گئے۔ مطلب جو ٹیم اپنا کمبی نیشن بنا لیتی ہے، مورال سیٹ کر لیتی ہے، وہ جیت جاتی ہے۔ لہٰذادعا ہے کہ پاکستان یہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیت کر اُن ملکوں کے منہ پر طمانچہ ضرور لگائے جنہوں نے بہانے بنا کر پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا اور نئے چیئرمین کے لیے مشکلات کھڑی کیں۔ اُمید ہے رمیز راجہ ایسے ہی سرعت کے ساتھ اگر کام کرتے رہیں گے تو وہ یقینا ملک کا نام روشن کرتے رہیں گے اور کرکٹ کی ساکھ کا بچا کر رکھیں گے اور ہاکی جیسا حال ہونے سے کرکٹ کو محفوظ رکھیں گے!