بھرے پُرے شہر خانپور کی یادیں……فقیر راحموں
یادوں کی گٹھڑی کھولتے بنی بڑی دیر سے برادر مہربان ریاض احمد خان کورائی بلوچ یاد آرہے تھے۔ کیسے مہربان دوست اور شفیق بھائی تھے ان جیسا غم گسار پھر نہیں ملا۔
یادوں کی گٹھڑی کھولتے بنی بڑی دیر سے برادر مہربان ریاض احمد خان کورائی بلوچ یاد آرہے تھے۔ کیسے مہربان دوست اور شفیق بھائی تھے ان جیسا غم گسار پھر نہیں ملا۔
بھلے وقتوں میں ان سے تعارف ہوا تھا۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب مرحوم عمر علی خان بلوچ نے سرائیکی سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز، نذیر لغاری، سعید خاور، ظفر اقبال جتوئی، ریاض احمد خان کورائی بلوچ اور دیگر بہت سارے دوست ایس ایس ایف سے تعلق میں ملے اور پھر ذاتی دوستیاں استوار ہوئیں۔
بچھڑ جانے والوں کے لئے دست دعا بلند کرتے رہتے ہیں اور زندوں سے ملاقات ہو ہی جاتی ہے۔
ریاض احمد خان کا تعلق خانپور سے تھا۔ اپنے لالہ ظفر اقبال جتوئی کے وہ لنگوٹیئے تھے۔ ہمارے لئے مہربان دوست اور بڑے بھائی۔ دوستیاں اور تعلق نبھانے میں یکتا ریاض خان سال 1987ء میں سفرِ حیات طے کرکے رخصت ہوگئے۔ اچھے بھلے یار باش محفلیں سجانے والے ریاض خان بس اچانک بیمار ہوئے اور چند ہی دنوں میں بیماری اس جوانِ رعنا کو نگل گئی۔
لالہ ظفر جتوئی سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے، ریاض خان کا تذکرہ باہمی گفتگو میں زیادہ رہتا ہے کیوں نہ ہو وہ ایسے ہی تھے۔
ان کے بڑے صاحبزادے اکبرخان نے تدریس کے شعبہ میں نام کمایااور چھوٹے عامر خان والد کی طرح زمینداری سے منسلک ہیں۔
خانپور ہمیشہ سے بھرا پُرا شہر ہے۔ کبھی ضلع ہوا کرتا تھا اب تحصیل ہے۔ اس شہر سے دور کے لوگ اسے میٹھے پیڑوں کی وجہ سے جانتے ہیں۔ ہمارے جاننے کے حوالے بہت ہیں۔
ریاض خان کے برادران اور بچوں سے مراسم وہی محبت بھرے اب بھی استوار ہیں۔ ملنے ملانے میں تاخیر ہوجاتی ہے کہ روزگار کے غم خود ایک حقیقت ہیں۔ جتوئی برادران کی تو خیر سے تیسری نسل دعویدار ہے کہ چاچا بخاری ہمارا دوست ہے۔
یہ دعویٰ حق پر ہے۔ ویسے تو خود جتوئی برادران آج تک فیصلہ نہیں کرسکے ان میں سے کس کے ساتھ تعلق دوسروں کی نسبت گہراہے۔ اس بھرے پُرے شہر کی یادیں بہت طویل ہیں اور قصے بھی۔
بہت پرانی بات ہے ہم ریاض خان کی گاڑی میں صادق آباد سے ’’سجی‘‘ تناول کرکے واپس خانپور آرے تھے، نصف شب سے کچھ اوپر کے وقت میں کوٹ سمابا کے پاس پولیس ناکہ پر گاڑی روک لی گئی۔ نکے تھانیدار نے کار سواروں سے پوچھا، کون تھیندو؟
ریاض خان بولے، کورائی بلوچ۔ جواب ملا نیچے اتر آو۔ پھر مختار خان نے کورائی بلوچ بتاکر تعارف کروایا، حکم ہوا گاڑی سے اترو۔ اب لالے ظفر کی باری تھی بولے سوہنامیں ظفر اقبال جتوئی ہاں۔ تھانیدار نے کہا ’’تساں وی لہہ آئو‘‘
گاڑی میں رہ گئے ہم اور نو دس سال کے اجمل بلوچ، اجمل خان اب ماشاء اللہ جوان اولاد کے والد ہیں ، اولاد کو جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے انہوں نے بہت محنت کی۔ تھانیدار نے ہماری طرف دیکھا اور بولا، صوفی جی تُساں کون تھیندو؟
عرض کیا سئیں میں بخاری بلوچ ہاں۔
ہمارے اس جواب پر ناکے پر کھڑے پولیس اہلکار اور ہمرائیوں کے علاوہ دیگر مشتبہ (روکے گئے) افراد بھی ہنس پڑے۔ تھانیدار نے حیرانی نے ہماری سمت دیکھااورپھر جونہی اس کے بڑے دماغ میں ہماری بات بیٹھی وہ ہنسا اور کہنے لگا جاو یارتسیں عیش کرو اس صوفی نے لاجواب کردتاوے۔
بعدمیں ہم اپنے خانپوری تعلق داروں میں بخاری بلوچ کی شناخت سے مشہور ہوئے اور یہ برجستہ جواب زندہ لطیفہ بن گیا۔ ایک زمانہ تھا جب ہم ہر بدھ کی شام دفتری امور کے تمام ہونے پر لاہور سے تیزرو ایکسپریس میں سوار ہوتے اور جمعرات کی صبح وارد خانپور۔ واپسی جمعہ کی شام کو ہوتی تھی یہ سلسلہ لگ بھگ پانچ سات سال قائم رہا۔
ان سے قبل کے برسوں میں تو یہ بھی ہوا کرتا تھا کہ قیام خانپور کے بعد واپسی کا سامان باندھتے تو کوئی نہ کوئی روک لیتا کل چلے جانا۔ اب یہ حال ہے کہ کئی کئی ماہ کبھی تو سال دو سال بیت جاتے ہیں خان پور گئے۔ یادیں البتہ تعاقب میں رہتی ہیں۔ وقت اپنی رفتارسے آگے بڑھتا جارہا ہے۔ وہ بھی کیا دن تھے فکر فاقوں سے محفوظ دوستوں کی ملاقاتیں۔
علمی سیاسی بحثوں کی محفلیں۔ ان دنوں میں رازی چوک پر میاں رشید دین پوری کے ٹی سٹال پر دن میں محفل سجتی جہاں خانپور کی نابغہ روزگار شخصیت میاں انیس احمد دین پوری مرحوم بھی تشریف لاتے اور پھر زمانے بھر کے موضوعات زیربحث آتے۔ میاں انیس احمد دین پوری مرحوم بھی ہمہ ساز شخصیت تھے۔ علم و ادب اور صحافت ان کا اوڑھنا بچھونا رہا عمر بھر حلیم اور علم دوست انسان تھے۔
جتوئی برادران کے والد مرید حسین خان ازجتوئی مرحوم بھی اپنی وضع کی شخصیت تھے سرائیکی زبان اور قومی تحریک سے انہیں عشق تھا۔
منیر دھریجہ مرحوم کیا کمال کی شخصیت تھے سرائیکی روزنامہ’’جھوک‘‘ کے بانی سرائیکی قومی شناخت ان کا پہلااور آخری عشق تھا۔ جواں عزمی کے دنوں میں ہی دنیا سرائے سے رخصت ہوگئے۔ وقت مہلت دیتا تو ایک مستحکم میڈیا ہائوس قائم کرکے چار اور کے لوگوں کو حیران کردیتے۔
وہ ایسے ہی تھے فیصلہ کرتے اور پھر ڈٹ جاتے۔ ہمارے دوست قاضی واحد بخش ہماری جیل یاتراکے دنوں میں جیل حکام کو چکمہ دے کر ملاقات کے جنگلہ پر آن موجود ہوا کرتے تھے۔
خانپور کا ذکر شروع ہوا تو ایک ایک کرکے بھولے بسرے لوگ یاد آنے لگے۔ جام بادامی اور بہت سارے دوسرے مولاسلامت رکھے ہمارے بھانجوں شوکت اور ساجد کو جو ماموں کے دوست بنے اور دوستوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ امریکہ میں مقیم ہمارے دوست عبید خواجہ کا تعلق بھی اسی خانپور سے، سرائیکی ان کا بھی اوڑھنابچھونا ہے۔