اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اب مزید کسی بھی قسم کی دہشتگردی کا متحمل نہیں ہوسکتا، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور مزید کسی خونریزی سے بچنے کیلئے پالیسی حکومت نے ہی ترتیب دینی ہے، تاہم یہ روش قابل تنقید ہے کہ 80 پزار سے زائد شہریوں اور فورسز کے جوانوں کے خون کو اتنی آسانی سے معاف کردیا جائے۔ ملک میں اب بھی یہ بحث جاری ہے کہ حکومت کیسے کسی بیٹے کا خون اسکے والدین کی مرضی کے بغیر معاف کرسکتی ہے؟ کیسے کسی باپ کا قتل اسکے بچوں کی منشاء کیخلاف معاف کیا جاسکتا ہے۔؟
وطن عزیز پاکستان میں ایک طویل عرصہ تک دہشتگردی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھنے والے دہشتگرد گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشتگردوں کو عام معافی دینے کی پہلے تو باتیں کی جا رہی تھیں، تاہم اب اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت کی جانب سے اب اس عمل (معافی) کا طریقہ کار طے کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے افغان طالبان سے تعاون لیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ٹی ٹی پی کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا تھا، امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے دوران اور پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی ایک بڑی تعداد افغان سرزمین پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئی تھی، اس حوالے سے اسلام آباد کی جانب سے متعدد مرتبہ تشویش کا اظہار بھی کیا گیا، تاہم قابض افواج نے افغانستان میں اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کی جانب سے افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
اس حوالے سے حکومت پاکستان اور طالبان رہنماوں کی ملاقاتیں اور تبادلہ خیال ہوا، پھر یہ خدشات سامنے آئے کہ اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کرتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ افغان طالبان مخالف عناصر ٹی ٹی پی کو ان کیخلاف افغانستان میں استعمال کریں، اسی قسم کا خدشہ اسلام آباد کو بھی تھا کہ اگر طالبان ٹی ٹی پی کیخلاف آپریشن کریں تو وہ دہشتگرد ایک مرتبہ پھر پاکستان کا رخ کرکے دہشتگردی کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں، لہذا دونوں حکومتیں اس نازک صورتحال میں محتاط نظر آئیں۔ اسی بنا پر حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات اور عام معافی کا عندیہ دیا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ اس حوالے سے طالبان حکومت پاکستان کی مدد کر رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ جلد معاملات طے پا جائیں گے اور ٹی ٹی پی کو عام معافی دی جائے گی۔ حکومت کے اس رویہ پر پاکستان میں کئی سنجیدہ حلقوں، خاص طور پر دہشتگردی سے متاثرہ طبقات نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اب مزید کسی بھی قسم کی دہشتگردی کا متحمل نہیں ہوسکتا، عوام کے جان و مال کے تحفظ اور مزید کسی خونریزی سے بچنے کیلئے پالیسی حکومت نے ہی ترتیب دینی ہے، تاہم یہ روش قابل تنقید ہے کہ 80 پزار سے زائد شہریوں اور فورسز کے جوانوں کے خون کو اتنی آسانی سے معاف کر دیا جائے۔ ملک میں اب بھی یہ بحث جاری ہے کہ حکومت کیسے کسی بیٹے کا خون اس کے والدین کی مرضی کے بغیر معاف کرسکتی ہے؟ کیسے کسی باپ کا قتل اس کے بچوں کی منشاء کیخلاف معاف کیا جاسکتا ہے۔؟ اگر تحریک طالبان کے دہشتگردوں کو عام معافی مل سکتی ہے تو پھر ملک بھر کی جیلوں میں مختلف جرائم کی پاداش میں قید مجرموں کا کیا قصور ہے۔؟ کالعدم ٹی ٹی پی کو عام معافی مل سکتی ہے تو ملک میں بے جا طور پر کالعدم قرار دی جانے والی پرامن سیاسی و مذہبی جماعتوں کو کیوں بلیک لسٹ میں رکھا گیا ہے۔؟ یہ کیسا قانون ہے، جو ہزاروں معصوم لوگوں کے قتل کی ذمہ داریاں قبول کرنیوالوں کو معافی اور پرامن طبقات کو کالعدم قرار دے۔؟
گذشتہ روز شیعہ علماء کونسل پاکستان کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی، جس میں اسی قسم کے نقطہ کو اٹھایا گیا کہ اور حکومت سے سوال کیا گیا کہ ’’ٹی ٹی پی کو عام معافی جبکہ ٹی جے پی (تحریک جعفریہ پاکستان) بدنام زمانہ لسٹ میں، کیا یہ ہے ریاست مدینہ۔؟ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کے دفتر سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’’تحریک طالبان پاکستان (TTP) کو جس کے بارے میں آپ بہت کچھ کہتے رہے، جو ریکارڈ پر ہے، عام معافی دینے کا فیصلہ کرچکے ہیں اور اس حوالے سے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اِدھر جنہوں نے مسلسل آئین و قانون کی بالادستی و نفاذ کی بات کی، اتحاد و اتفاق اور امن و بھائی چارے کے لئے عملی اقدامات کیے، انہیں تسلسل سے بدنام زمانہ سیاہ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے، تحریک جعفریہ پاکستان کے خلاف سرکاری ریفرنس کو لاحاصل اور بے ثمر قرار دینے کے واضح فیصلے اور متعدد و مسلسل یاد دہانیوں کے باوجود بدنام زمانہ سیاہ لسٹ سے ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جا رہا۔ کیا یہی ہے ریاست مدینہ ماڈل، جس کا نعرہ لگایا جا رہا ہے؟ کیا یہی ہے اتباع رسول (ص)، جس کا دعویٰ کیا جا رہا ہے؟ اگر یہی ریاست مدینہ کا ماڈل ہے اور یہی اتباع رسول ہے تو ۔۔۔۔ فعلیٰ ہذا الاسلام السلام۔ یہ تضاد اور۔۔۔۔۔ کیوں؟‘‘
یاد رہے کہ تحریک جعفریہ پاکستان کو جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے دوران محض بیلنس پالیسی کے تحت 2002ء میں کالعدم قرار دیا گیا، ملک کے سکیورٹی ادارے اور سابقہ حکومتیں اچھی طرح سے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ تحریک جعفریہ ایک سیاسی و مذہبی جماعت تھی، اس تنظیم کا کوئی رہنماء کسی بھی وطن مخالف سرگرمی یا دہشتگردی جیسی لعنت میں ملوث نہیں پایا گیا۔ یہاں ٹی ٹی پی کا ٹی جے پی کیساتھ کسی ظور پر موازنہ نہیں کیا جاسکتا، تاہم شیعہ علماء کونسل کا اس صورتحال میں یہ سوال بالکل حق بجانب ہے کہ ’’ٹی ٹی پی کو عام معافی جبکہ ٹی جے پی (تحریک جعفریہ پاکستان) بدنام زمانہ لسٹ میں، کیا یہ ہے ریاست مدینہ۔؟‘‘ یہ کتنا بڑا تضاد ہے کہ ملک میں سیاسی، جمہوری اور عوامی جدوجہد کو تو خلاف قانون قرار دے دیا جاتا ہے اور اسی مملکت میں تمام تر قانون و آئین اور اقدار کا جنازہ نکالنے اور ایک، دو نہیں بلکہ 80 ہزار سے زائد انسانوں کو جینے کے حق سے محروم کر دینے والے دہشتگرد گروہ کیلئے عام معافی کیلئے ریاستی کوششیں کی جاتی ہیں۔