حیفا کے قریب اسرائیلی غوطہ خور کو صلیبیوں کے زمانے کی نادر تلوار مل گئی
ہفتے کے روز اسرائیل کے شہر حیفا کے جنوب میں ایک اسرائیلی غوطہ خور کو سمندر کے اندر آثار قدیمہ کا انکشاف ہوا۔
ہفتے کے روز اسرائیل کے شہر حیفا کے جنوب میں ایک اسرائیلی غوطہ خور کو سمندر کے اندر آثار قدیمہ کا انکشاف ہوا۔ اس دوران ملنے والی اشیاء میں زیادہ تر پتھریلے اور فولادی لنگر اور بیش قیمت ٹوٹے ہوئے برتن شامل ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ دل چسپی کی حامل چیز ایک فولادی تلوار ہے۔ تلوار کا دستہ 30 سینٹی میٹر کا ہے جب کہ اس کی لمبائی ایک میٹر کے قریب ہے۔
اس حوالے سے سامنے آنے والی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مذکورہ تلوار پر ریت اور گیلی مٹی جمی ہوئی ہے۔ غوطہ خور نے تلوار کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے اسے فوری طور پر اسرائیلی آثار قدیمہ کے حکام کے حوالے کر دیا۔ ساتھ ہی دیگر اشیاء بھی دے دیں۔ اس پر حکام کی جانب سے غوطہ خور کے لیے ستائشی سرٹفکیٹ جاری کیا گیا۔
حکام کے مطابق سمندر کی گہرائی سے ملنے والی یہ تلوار صلیبی حملوں کے زمانے کے ایک جنگجو کی ہے۔ تلوار کی صورت اور ملنے کا مقام اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ درحقیقت صلیبیوں سے متعلق ہے۔
اسرائیل میں ‘سمندری آثار قدیمہ’ کے یونٹ کے سربراہ شارویت کے مطابق حیفا کے جنوب میں واقع ساحل سمندر کے بیچ طوفان میں پھنس جانے والے قدیم جہازوں کے واسطے فلسطین میں محفوظ مقام کے طور پر کام آتا تھا۔ اسی وجہ سے جہازوں پر موجود افراد یہاں بہت سی اشیاء چھوڑ گئے۔ یہ مقام 4000 سال پہلے ایک چھوٹی بندرگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔
شارویت نے بتایا کہ ملنے والی تلوار پر جمی مٹی صاف کی جا رہی ہے۔ اس کے بعد تلوار کا X-Ray کیا جائے گا تا کہ معلوم ہو سکے کہ یہ مقامی طور پر تیار کی گئی تھی یا اسے کوئی صلیبی ساتھ لایا۔ اگر یہ تلوار صلیبی مہم جوئی کے پہلے مرحلے کی ہوئی تو اس کی عمر 900 برس ہو گی۔
برطانوی اخبار "ٹائمز” کی رپورٹ کے مطابق صلیبی مہم جوئی کا آغاز 11 ویں صدی عیسوی کے اواخر میں ہوا تھا اور یہ سلسلہ قریبا دو صدیوں تک جاری رہا۔ یہ مہم جوئی فلسطین، شام، لبنان اور بحر روم کے بعض جزیروں پر مشتمل تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1187ء میں طبریہ کے مغرب میں "حطین کے معرکے” میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں پر فتح حاصل کی۔ یہ کامیابی علاقے میں آخری مہم میں شریک افراد کے کوچ کر جانے کی اصل وجہ بنی۔