
لاہور پاکستان(شیخ جعفر محمود وائس آف جرمنی):پاکستان کے صوبہ پنجاب نے ہتک عزت سے متعلق ایک ایسا قانون پاس کر لیا ہے جس میں کسی بھی شخص کی ہتک کرنے کا الزام ثابت ہونے پر ملزم کو 30 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا۔
یہ قانون بیک وقت الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر لاگو ہو گا۔ 20 مئی کو پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود اس قانون کو پاس کرلیا جبکہ صحافتی تنظیموں نے بھی اس قانون کے پاس ہونے پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔
بل پر ووٹنگ کا عمل شروع ہونے پر پریس گیلری میں بیٹھے صحافیوں نے نعرے لگاتے ہوئے پنجاب اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور اسمبلی کی سیڑھیوں پر احتجاج کرتے ہوئے حکومت پر تنقید کی۔
صحافتی تنظیموں نے اس سے قبل کئی گھنٹے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری اور سپیکر اسمبلی ملک محمد احمد خان کے ساتھ مذاکرات کیے اور مطالبہ کیا کہ قانون پر ووٹنگ فی الحال روک دی جائے، تاہم یہ مطالبہ مسترد کر دیا گیا۔
ویسے تو پاکستان میں پہلے بھی ہتک عزت کا قانون موجود ہے، تاہم یہ پہلی بار ہوا ہے کہ سوشل میڈیا یعنی یوٹیوب، ٹک ٹاک، فیس بُک اور انسٹاگرام جیسی ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز پر شیئر کیا جانے والا مواد بھی اِس کی زد میں آئے گا۔
صحافی تنظیمیں تو اس قانون کے خلاف یک زبان ہیں البتہ سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی رائے اس پر مِلی جُلی ہے۔