’جسٹس صاحب،آپ سب ایک منٹ خاموش ہو جائیں اور میری بات سنیں‘
پاکستان کی سپریم کورٹ میں اے پی ایس حملہ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان نے عدالت سے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار لوگ مارے گئ
پاکستان کی سپریم کورٹ میں اے پی ایس حملہ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان نے عدالت سے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار لوگ مارے گئے، کمیشن بنا کر تحقیقات کرائی جائیں کہ اس جنگ میں جانے کا فیصلہ کس نے کیا اور ڈرون حملوں کی اجازت کس نے دی؟
چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیراعظم کے بیان پر جواب دیا کہ اس وقت آپ کی حکومت ہے اور ایسی تحقیقات کرانا آپ کا کام ہے۔
سپریم کورٹ نے اے پی ایس حملہ کیس میں وزیراعظم عمران خان کو طلب کیا تو وزیراعظم مشاورت کے بعد عدالت میں پیش ہو گئے۔
وزیراعظم کی آمد سے قبل پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بڑی تعداد سپریم کورٹ پہنچائی گئی۔ بم ڈسپوزل سکواڈ نے سکیورٹی کلیئرنس دی تو وزیراعظم کی ذاتی سکیورٹی کے اہلکار بھی پہنچ گئے۔
ابتدا میں اطلاع یہی تھی کہ وزیراعظم سپریم کورٹ کے مرکزی گیٹ سے گاڑی میں بیٹھ کر اندر آئیں گے اور کیمروں کے سامنے عدالت کے اندر جائیں گے تاہم وہ عدالت کے ججز دروازے سے کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔
وزیراعظم 11 بج کر 40 منٹ پر عدالت پہنچے تو کمرہ عدالت نمبر ایک کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ وفاقی وزرا فواد چودھری، مراد سعید، علی زیدی، فرخ حبیب اور معاون خصوصی شہباز گل وزیراعظم کے ہمراہ عدالت پہنچے جبکہ وزیر داخلہ شیخ رشید اس سے پہلے ہی عدالت پہنچ چکے تھے۔
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے وزیراعظم عمران خان کو روسٹرم پر بلا لیا۔ وزیراعظم جو کمرہ عدالت میں پہلی قطار میں ماسک پہنے بیٹھے تھے اور ہاتھ میں تسبیح تھی، اٹھے ماسک اتار اور روسٹرم کی طرف بڑھے۔
وزیراعظم آگے بڑھے تو اے پی ایس حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین جن میں عورتیں اور بزرگ شامل تھے وہ بھی ان کے ساتھ آگے بڑھے جنھیں سکیورٹی اہلکاروں نے روک دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم آپ کو بعد میں سنیں گے۔‘
اس پر لواحقین کمرہ عدالت میں ہچکیاں لے کر رونے لگے۔ ان کے ساتھ آئے رشتہ دار انھیں تسلیاں دیتے رہے۔ جتنی دیر وزیراعظم روسٹرم پر موجود رہے سکیورٹی اہلکار مرد و خواتین نے لواحقین کو اپنے گھیرے میں لیے رکھا تاکہ وہ آگے نہ بڑھ سکیں۔
وزیر اعظم روسٹرم پر پہنچے اور ماسک اتار کر کھڑے ہوگئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کے لیے تمہید باندھی اور کہا کہ ’سانحہ اے پی ایس 2014 میں ہوا، سانحے کی رپورٹ 2019 میں سامنے آئی، جن کی ذمہ داری تھی ان کا احتساب نہیں کیا گیا، ہم نے اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کا حکم دیا تھا۔ والدین کے تحفظات دور کرنے کے لیے حکومت نے کیا کیا؟‘
وزیر اعظم نے ’تھینک یو مائی لارڈ‘ کہنے کے بعد اپنے روائیتی انداز میں 2014 سے بات کا آغاز کیا اور کہا کہ ’جب واقعہ ہوا تو وہ اسی دن پشاور پہنچا، ہماری صوبائی حکومت تھی ہم جو ازالہ کر سکتے تھے وہ کیا۔‘
وزیر اعظم کا انداز بالکل ویسا ہی تھا جیسے وہ عموماً اپنے خطاب میں کوئی بھی بات سمجھانے کے لیے شروع سے بات لے کر چلتے ہیں۔ جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ’آپ وزیر اعظم ہیں، ہمارے لیے قابل احترام ہیں، آپ ہمارے بھی وزیراعظم ہیں لیکن مدعے پر رہیں۔‘
اس کے بعد بینچ میں موجود تینوں ججز نے یکے بعد دیگرے سوالات کیے اور ریمارکس دیے تو وزیر اعظم نے کہا کہ ’جسٹس صاحب آپ نے مجھے بلایا ہے اور اگر آپ مجھے بات کرنے کا موقع دیں گے تو مجھے آپ کو سمجھانے میں آسانی ہوگی۔ آپ کو اے پی ایس حملے کا سیاق و سباق سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ واقعہ کن حالات میں ہوا تھا۔‘
ججز کی جانب سے ایک بار پھر وزیراعظم کو ٹوکا گیا اور ریمارکس سامنے آئے کہ عدالت نے گذشتہ سماعت پر ایک حکم نامہ جاری کیا تھا اور اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ وہ آپ سے ہدایات لے کر آئیں۔ آپ بتائیں کہ آپ کی حکومت نے اے پی سانحہ کے لواحین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے۔
اس پر وزیر اعظم نے کہا ’دیکھیں جسٹس صاحب میری بات سنیں جنرل مشرف نے طالبان کے ساتھ پریشر میں آکر جنگ شروع کر دی۔ ہمارا نائن الیون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ نائن الیون میں کوئی پاکستانی بھی ملوث نہیں تھا۔ ہم نے واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا ،دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اب ہم نے نیشنل ایکشن پلان کو بہتر کر کے نیشنل انٹیلی جینس کوآرڈینیشن کمیٹی بنائی ہے۔ طالبان حکومت کے آنے کے بعد داعش، ٹی ٹی پی، بلوچ علیحدگی پسند لوگ جو افغانستان میں چھپے ہوئے تھے پاکستان آ گئے ہیں۔ طالبان حکومت کے بعد ڈھائی لاکھ لوگ پاکستان کے راستے باہر گئے۔ دہشت گرد ان ڈھائی لاکھ لوگوں کی آڑ میں ملک سے رو پوش ہو گئے۔ ہماری ساری سکیورٹی ایجنسیز ممکنہ حظرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ابھی تک یہ سمجھ آیا کہ جو ہونے والا اس کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جو ہو چکا ہے اس کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے۔‘
وزیراعظم نے ایک بار پھر کہا کہ ’جسٹس صاحب دیکھیں اس وقت ملک میں دہشت گردی بڑھ گئی ہے۔ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہم نے دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات کو ہونے سے روکا ہے۔ جب تک افغانستان بہتر نہیں ہوتا بہت سے چیلنجز ہیں۔‘
وزیراعظم جوں جوں بات آگے بڑھاتے تو وہ تقریر کے موڈ میں آتے جاتے اور ان کی آواز بلند ہو جاتی جس کے بعد بینچ کی جانب سے مداخلت کی جاتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیراعظم کو روکتے ہوئے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ مسائل موجود ہیں۔ ہم نے آپ کو لوگوں کے نام دیے۔ اٹارنی جنرل سے کہا کہ اعلیٰ سطح سے پوچھ کر بتائیں کہ ان ناموں کا کیا ہونا ہے۔ ہم آپ سے یقین دہانی چاہتے ہیں کہ آپ کارروائی کریں گے۔ چاہتے ہیں شہدا کے والدین کو تسلی ہو کہ عدالتیں اور حکومت سانحہ اے پی ایس کو نہیں بھولے۔‘
جس پر وزیراعظم نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل نے مجھے بتایا ہے کہ ’ان لوگوں پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لیے ان پر ایف آئی آر نہیں ہو سکتی۔ آپ حکم کریں ہم کارروائی کر دیں گے۔ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔‘
جس پر عدالت نے کہا کہ اگر کوئی مقدس گائے نہیں ہے تو پھر کارروائی کریں۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے عدالت سے بات کرنے کی اجازت چاہی اور کہا کہ اے پی ایس حملہ میں جن کی مجرمانہ غفلت تھی ان کو سزائیں ہوئیں، اے پی ایس سانحہ رپورٹ میں کوئی ایک پیرا بتائیں جس پر عمل نہ ہوا ہو، اخلاقی ذمہ داریاں سابق وزیراعظم پر بھی عائد ہوتی ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’ہم آپ کو مقدمہ درج کرنے کا نہیں بلکہ اس سے متعلق اقدامات کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جمہوریت میں تو اخلاقی ذمہ داری پر تو استفعے دے دیے جاتے ہیں لیکن پاکستان کا کلچر ہی کچھ اور ہے۔‘
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ایک حل تھا کہ سانحہ اے پی ایس کے دن وزیراعظم، آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف مستعفیٰ ہو جاتے لیکن تو بھی معاملہ حل نہ ہوتا۔ اس وقت پی ٹی آئی اور حکومت کا بڑا تنازعہ تھا۔ پی ٹی آئی نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کر سکتی تھی لیکن تمام جماعتیں متحد ہوئیں۔‘
اس کے بعد چیف جسٹس نے سماعت کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ حکومت اے پی ایس حملہ کیس میں انصاف کے تقاضے پورے کرے اور اس عدالت نے گذشتہ فیصلے پر عمل در آمد کی رپورٹ چار ہفتے میں جمع کرائے جس پر وزیراعظم کے دستخط موجود ہوں۔
حکومت اس سلسلے میں بچوں کے والدین کا مؤقف لے کر کارروائی کرے۔
جب چیف جسٹس حکم نامہ لکھوا رہے تھے اس وقت لواحقین خواتین نے پھر رونا شروع کر دیا اور چیف صاحب چیف صاحب ہماری بات سنیں پکارنا شروع کیا۔ جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم آپ کی بات سنیں گے۔
حکم نامہ لکھوانے کے بعد چیف جسٹس وزیراعظم سے دوبارہ مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’آپ ان لواحقین سے ملیں ان کی داد رسی کریں اور آپ نے جو کہا کہ ہم نے معاوضہ ادا کر دیا ہے وہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم کا کردار والدین جیسا ہوتا ہے۔‘
اس پر وزیراعظم عمران خان قدرے جذباتی ہوئے اور کہا کہ ’پوری قوم ان والدین کے جذبات سمجھتی ہے کہ یہ سب صدمے میں ہیں لیکن مجھے آپ نے بلایا ہے۔ میں حاضر ہوا ہوں، آپ کو ان لوگوں کا درد محسوس ہو رہا ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار لوگ مارے گئے۔ یہ جنگ ہماری نہیں تھی آپ کمیشن بنائیں جو تحقیقات کرے کہ اس جنگ میں شمولیت کا فیصلہ کس کا تھا۔ ہمارا اتحادی امریکہ ہماری اجازت سے ہمارے لوگوں پر ڈرون حملے کرتا رہا وہ اجازت کس نے دی۔ آپ کمیشن بنائیں ہم ذمہ داران کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کا سوال عدالت سے متعلقہ نہیں ہے، آپ حکومت میں ہیں اور یہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔
جسٹس اعجاز الحسن نے وزیراعظم سے پھر کہا کہ آپ ان سے ملیں اور ان کو تسلی دیں۔
سماعت ختم ہونے کے بعد جب وزیر اعظم جانے کے لیے واپس مڑے تو لواحقین نے ان کا راستہ روکا تو سکیورٹی اہلکاروں نے ان کو ایک سائیڈ پر کھڑا کر دیا۔ وزیراعظم خواتین سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’میں آپ سے علیحدہ ملوں گا‘ اور یہ کہہ کر چلے گئے۔ وزیراطلاعات فواد چودھری نے بھی لواحقین کو یقین دلایا کہ وہ ان کی ملاقات کروائیں گے۔
اس دوران لواحقین میں سے ایک بزرگ نے اپنے دونوں بازو اوپر اٹھائے اور دہائیاں دینا شروع ہوگئے اور کہا کہ ’میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں مجھے معلوم ہے کہ مجھے انصاف نہیں ملے گا۔‘
سکیورٹی اہلکار نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ خیال کریں یہ عدالت ہے۔ جس پر ساتھ کھڑے شخص نے کہا کہ ’ان کے دو بیٹے مارے گئے تم انھیں عدالت کا ڈیکورم سکھا رہے ہو۔‘
اس دوران عدالت اگلے کیس پر سماعت شروع کر چکی تھی اور لواحقین روتے ہوئے باہر آگئے اور کمرہ عدالت باہر بیٹھ کر بھی ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے رہے۔