بین الاقوامی

طالبان نے بامیان میں ہزارہ رہنما کے مجسمے کو ہٹا دیا، پرتشدد ردعمل کا خطرہ

بامیان کے رہائشیوں نے بتایا ہے کہ طالبان نے سابق حکومت کی طرف سے قومی شہید قرار دیے گئے ہزارہ رہنما کے مجسمے کو ہٹا دیا ہے۔

بامیان کے رہائشیوں نے بتایا ہے کہ طالبان نے سابق حکومت کی طرف سے قومی شہید قرار دیے گئے ہزارہ رہنما کے مجسمے کو ہٹا دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو رہائشیوں نے خبردار کیا کہ اس اقدام سے تشدد کا آغاز ہو سکتا ہے۔
مجسمہ عبدالعلی مزاری کا ہے جو شیعہ اقلیت کے رہنما تھے اور طالبان کے پہلے دور اقتدار کے دوران مارے گئے تھے۔
’امریکہ کے نئے نمائندہ خصوصی طالبان سے پاکستان میں ملاقات کریں گے‘
اگست میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد مجسمے کے سر کو راکٹ لانچر سے اڑا دیا گیا تھا۔
وسطی افغانستان کے شہر کے رہائشی اس کا الزام طالبان پر عائد کرتے ہیں۔
طالبان کی اسلام کی سخت تشریح پینٹنگز اور مجسمہ سازی میں انسانی شکل کی عکاسی کرنے سے منع کرتی ہے – اور انتہائی ضرورت میں ہی تصویریں پرنٹ کی جاتی ہیں۔
بہت سے کاروباری افراد نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لوگوں کو نمایاں کرنے والے بل بورڈز اور پوسٹرز کو ہٹا دیا ہے یا ان کو ڈھانپ دیا ہے۔
بامیان میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن عبدالدانشیار کے مطابق ‘کل انہوں نے مجسمے کو مکمل طور پر ہٹا دیا اور اس کی جگہ قرآن کی نقل لگا دی۔’
‘وہ بامیان سے تاریخ کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، عوام اس پر پرتشدد ردعمل کا اظہار کریں گے۔’
عبدالعلی مزاری کا مجسمہ بامیان کے مرکزی چوک میں نصب کیا گیا تھا، جہاں طالبان نے 2001 میں امریکی حملے سے پہلے بدھا کے دو بڑے 15 سو سال پرانے مجسموں کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔
عبدالدانشیار نے مزید بتایا کہ عبدالعلی مزاری کے نام سے منسوب چوک کا نام بدل کر ‘ملٹری سٹریٹ’ رکھ دیا گیا ہے۔
بامیان کی صوبائی کونسل کے رکن عبدالعلی شفق نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ طالبان حکام سے بات کریں گے اور ان پر زور دیں گے کہ وہ اس اقدام کو واپس لیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ بہت حساس مسئلہ ہے۔ اس پر ردعمل آ سکتا ہے۔’
عبدالعلی مزاری، جو ایک طالبان مخالف ملیشیا کے رہنما تھے، 1995 میں طالبان کے ہاتھوں قیدی بنائے جانے کے بعد مارے گئے تھے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button