عظیم رفیق کے الزامات کے بعد مزید انکشافات، برطانوی کرکٹ میں بھونچال برپا
برطانوی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اینڈ سپورٹس (ڈی سی ایم ایس) کے سامنے شہادت دیتے ہوئے عظیم رفیق نے بتایا کہ کہ ان کے کلب میں اداراتی سطح پر نسل پرستی کا کلچر پھیلا ہوا ہے۔
یارکشائر کے لیے کھیلنے والے کرکٹر عظیم رفیق کی گواہی نے مغرب میں جاری نسل پرستی کا پردہ چاک کر دیا۔
برطانوی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اینڈ سپورٹس (ڈی سی ایم ایس) کے سامنے شہادت دیتے ہوئے عظیم رفیق نے بتایا کہ کہ ان کے کلب میں اداراتی سطح پر نسل پرستی کا کلچر پھیلا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ برطانوی ٹیم کے کپتان مائیکل وان نے 2009 میں یارکشائر کے لیے کھیلنے والے ایشیائی قومیت کے کھلاڑیوں کو اکٹھا کر کے کہا تھا کہ آپ لوگ ضرورت سے زیادہ تعداد میں کلب کرکٹ میں آ گئے ہیں۔
عظیم رفیق کی گواہی نے عالمی میڈیا میں ایک طوفان برپا کر دیا اور دیگر قومیتوں کے کھلاڑیوں نے بھی اپنے اپنے تجربات شئیر کرنے شروع کر دیے۔
عظیم رفیق نے ڈیوڈ لائیڈ پر شدید قسم کے نسل پرست ہونے کا الزام عائد کیا، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے نامور تجزیہ کار ہونے کو استعمال کرتے ہوئے مجھ پر تہمت لگائی تھی۔
ڈیوڈ لائیڈ نے جواب میں ٹوئٹر کا سہارا لیا اور اعتراف کیا کہ انہوں نے ایشیائی کرکٹ کمیونٹی کے متعلق کچھ ناخوشگوار تبصرے کیے تھے۔
انہوں نے عظیم رفیق اور ایشیائی کرکٹ کمیونٹی سے معافی بھی مانگی تاہم سکائی سپورٹس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر قسم کے امتیاز کے خلاف ہیں، ہم ڈیوڈ لائیڈ پر عائد کیے ہوئے الزامات کی تحقیقات کریں گے۔
عالمی میڈیا کے مطابق ڈیوڈ لائیڈ پر سامنے آنے والے الزامات کے بعد ان کا سکائی سپورٹس کے ساتھ کانٹریکٹ خطرے میں پڑ گیا ہے۔
عظیم رفیق کی کمیٹی کے سامنے تین گھنٹے کی شہادت میں مزید نام بھی سامنے آئے، انہوں نے بتایا کہ سابق برطانوی بلے باز گیری بلانس مختلف النسل لوگوں کو ’کیون‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔
گیری بلانس نے بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے رفیق کو پاکی کے نام سے مخاطب کیا تھا مگر ان کا کہنا تھا کہ یہ دوستوں کے درمیان چلنے والا ہلکا پھلکا مزاح تھا۔
عظیم رفیق نے مزید بتایا کہ سابق برطانوی کھلاڑی ایلکس ہیلز نے ایک کالے رنگ کا کتا خرید کیا اور اس کا نام کیون رکھ دیا۔
ایلکس ہیلز نے ایک بیان جاری کیا جس میں عظیم رفیق کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ہر قسم کی تحقیقات میں تعاون کرنے کا یقین دلایا۔
عظیم رفیق نے سابق برطانوی آل راؤنڈر بریسنن کے متعلق بھی انکشاف کیا کہ وہ مسلسل نسل پرستانہ کمنٹس کرتے رہتے تھے۔
بریسنن نے ٹوئٹر پر عظیم رفیق سے معافی مانگی مگر ساتھ ہی سختی سے نسل پرستانہ ریمارکس کرنے کی تردید کی۔
اس ساری ہلچل کے دوران برطانوی وزیراعظم بھی میدان میں آ گئے، انہوں نے ٹوئٹر پر عظیم رفیق کی بہادرانہ گواہی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ نسل پرستی کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے، ہم برطانوی کرکٹ اور یارکشائر کاؤنٹی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان الزامات کے حوالے سے فوری ایکشن لیں گے۔
برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق حکومت کڑی نظر رکھے گی کہ نسل پرستی کے ان الزامات کے متعلق کیا ایکشن لیے گئے ہیں۔
اس تمام قضیے میں ایک اور کرکٹر جیک بروکس بھی لپیٹ میں آ گئے جن کا تعلق سمرسیٹ کاؤنٹی کرکٹ کلب سے ہے۔ عظیم رفیق نے ان پر بھی نسل پرستانہ ریمارکس کا الزام عائد کیا تھا۔
37 سالہ جیک بروکس نے 2012 میں دو ٹویٹس کیے تھے جن میں انہوں نے نسل پرستانہ زبان استعمال کی تھی۔ اس وقت وہ نارتھمپن شائر کے لیے کھیلا کرتے تھے۔
انہوں نے بھی اپنے ریمارکس پر غیرمشروط معافی مانگی اور کہا کہ انہیں دل دکھانے والے کمنٹس پر شدید تکلیف ہے۔
عظیم رفیق کے الزامات کے بعد سابق برطانوی خاتون کرکٹر ایبونی رین فورڈ برینٹ نے بھی انکشاف کیا تھا انہیں ایک خط موصول ہوا تھا جس میں انہیں ملک چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔
37 سالہ رین فورڈ برینٹ کالے رنگ کی خاتون کرکٹر ہیں جو برطانیہ کے لیے کرکٹ کھیلتی رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ موصول ہونے والے خط میں گالیاں بھی لکھی گئی تھیں۔ انہوں نے یہ خط ٹویٹر پر پوسٹ کر دیا تھا۔
عظیم رفیق نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ انہیں کئی بار زبردستی شراب پلائی گئی جس کے بعد انہوں نے 2012 میں مجبوراً شراب نوشی شروع کرنا پڑی۔
گزشتہ روز ویسٹ انڈیز کے سابق کرکٹر ٹینو بیسٹ نے ان کے اس الزام کی تائید کرتے ہوئے بھونچال برپا کر دیا۔
بی بی سی سپورٹس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ کاؤنٹی کرکٹ میں شراب پینے کی روایت کی وجہ سے ایشیائی اور افریقی کھلاڑیوں کو انگلش کرکٹ میں کھیلنے کے مواقع کم ملتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو کلب ہاؤس جا کر آٹھ نو جام لنڈھانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے، اگر آپ شراب پینے کے کلچر کا حصہ نہیں بنتے تو آپ کو زیادہ مواقع نہیں مل سکتے۔
انہوں نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ 2010 میں جب وہ یارکشائر کے لیے کھیلتے تھے تو عظیم رفیق، عادل رشید اور اجمل شہزاد جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا تھا۔
ٹینو بیسٹ کا کہنا تھا کہ یہ لوگ انتقامی کارروائی کے خوف سے اپنی شکایات کو پبلک نہیں کر سکتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ 2010 میں ایشیائی کھلاڑیوں کے لیے شکایات بتانے کا کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا، اگر وہ اپنے ساتھ ہونے والا سلوک سامنے لے آتے تو ان کے کانٹریکٹ ختم کر دیے جاتے اور کلب سے بھی ممکنہ طور پر نکال دیا جاتا۔