طیبہ بخاریکالمز

قدم بڑھاﺅ انسانیت ۔۔۔۔ہم تمہارے ساتھ ہیں..طیبہ بخاری

”کون مسلم ، کون کافر، کون جنتی، کون جہنمی ۔۔۔کیوں نا یہ اختیار خدا کو واپس کر دیا جائے ۔“ کیوں کہا منٹو نے سب ؟ شائد جان گئے تھے کہ ساری جنگ ہی ”اختیار“ کی ہے ،

سعادت حسن منٹو نے کہا تھا
”کون مسلم ، کون کافر، کون جنتی، کون جہنمی ۔۔۔کیوں نا یہ اختیار خدا کو واپس کر دیا جائے ۔“ کیوں کہا منٹو نے سب ؟ شائد جان گئے تھے کہ ساری جنگ ہی ”اختیار“ کی ہے ، ۔۔۔۔ ایسی چھڑی ہے یہ جنگ کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ، لاکھوں کروڑوں زندگیاں نگل گئی لیکن اختیار کی بھوک بڑھتی اور بھڑکتی ہی جا رہی ہے ، کون کرے گا اسے ٹھنڈا؟ کب یہ سلسلہ ہو گاختم ۔۔۔یاہم بھی ہونگے بھسم ۔۔۔۔منٹو کو یاد کیا تو یاد آیا کہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ”شیطان اتنا بڑا گستاخ تھا کہ اس نے سیدھا خدا کو کہہ دیا کہ میں نہیں کرتا سجدہ اور مردود ہوگیااورخدا اتنا بڑا سیکولر ہے کہ اس نے اختلاف رائے پر شیطان کو مارا نہیں بلکہ مہلت دی کہ اپنے نظرئیے پر لوگوں کو قائل کرسکتا ہے تو کر لے۔ لیکن یہ خدا کے ماننے والے پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔“
آج کل ”بھیڑ “کا موضوع زیر بحث ہے ….کس مٹی سے بنی ہے یہ بھیڑ ۔۔کیسی ہے بھیڑ ہے ؟ کس کی پیروکار ہے ؟ کس کی خدمت کرنا چاہتی ہے ؟ کس کو مانتی ہے ؟ اور کس کی مانتی ہے …؟خدا کو مانتی ہے ۔۔۔۔لیکن خدا کی نہیں مانتی ۔خدا تو ان کوبھی رزق دیتا ہے جو اُسے نہیں مانتے ، اُس کے بنائے سورج ، چاند ، ستارے اُن کیلئے بھی ہیں جو اُس کی عبادت نہیں کرتے۔۔۔۔ سوشل میڈیا پر ایک”ہمدرد“نے ویڈیو میسیج بھیجا….ہم نے سوچا کہ اس ہمدرد کے سوالات ،جوابات اور ان کے لفظوں میں چھپا کرب سب آپ تک پہنچائے دیتے ہیں … درد اور فکر میں ڈوبے الفاظ کچھ اس طرح ہیں
کہیں یہ وہ بھیڑتو نہیں ہے۔۔۔۔جودرختوں میں زندہ نبیوں کو گاڑتی تھی
جو وقت تصلیبِ ابنِ مریم ؑ تماش بیں تھی۔۔۔۔۔
جو آگ میں پھینکے جانے والے خلیلِ یزداں پہ ہنس رہی تھی۔۔۔۔
جو ثور کی غار تک نبیﷺ کو شہید کرنے چلی گئی تھی۔۔۔۔۔
جو شہرِ طائف میں سنگ اٹھائے نبیﷺ کو زخموں سے بھر رہی تھی۔۔۔۔
جو کربلا میں حسینؓ کے سر کونیزے پہ رکھ کے گھومتی تھی۔۔۔
یہ بھیڑ ویسی ہی لگ رہی ہے۔۔۔۔
یہ دعوے تو کر رہی ہے ایک ایسے انساں کی پیروی کے، جو اپنے دشمن پہ مہرباں تھا۔۔۔۔۔
اگر کہیں کوئی کوڑا پھینکے تو مسکراتا۔۔۔۔
گر خدا بھی کہے کہ طائف کے سنگباروں کو بد دعا دو، تو انہیں بھی دعائیں دیتا۔۔۔۔۔
جو فتح پہ آتا تو شہر بھر کی ہر ایک غلطی کو معاف کرتا۔۔۔۔
جو قتل کرنے کو ڈھونڈتے تھے۔۔۔انہیں بلا کر گلے لگاتا
یہ بھیڑ دعوے ہی کر رہی ہے۔۔۔یہ بھیڑ لوگوں کو مارتی ہے
بے گناہوں کو کاٹتی ہے۔۔۔مسخ کرتی ہے لاش تک کو
یہ کس پیمبر کی پیروی ہے۔۔۔؟
یہ کس خدا نے کہا ہوا ہے۔۔۔؟
میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں۔۔۔۔
یہ بھیڑ جس میں ہزاروں ریپسٹ، لاکھوں راشی ، کروڑوں جھوٹے چھپے ہوئے ہیں
کہیں یہ وہ بھیڑ تو نہیں ہے۔۔؟
جو درختوں میں نبیوں کو زندہ گاڑتی تھی
اس ”ہمدرد “ کیلئے صرف اتنا کہنا ہے کہ ہاں ۔۔۔ یہ وہی بھیڑ ہے جو مذہب کے نام پرتوہین ِ انسانیت کرتی ہے ۔۔۔۔۔
جو مظلوموں کا تماشا بناتی اور دیکھتی آئی ہے
یہ وہی بھیڑ ہے جو کربلا میں بہتروں کے مقابلے میں لاکھوں کی تعداد میں تھی
یہ وہی بھیڑ ہے جس نے ششماہے کی پیاس تیر سے بجھائی تھی
یہ وہی بھیڑ ہے جو کبھی قرآن نیزوں پہ ا ٹھاتی ہے
تو کبھی خیمے جلاتی ہے
بیٹیوں کے سروں سے چادر چھین کر فتح کے نقارے بجاتی ہے
یہ وہی بھیڑ ہے جو جانوروں کا گلہ کاٹتے تکبیر پڑھتی ہے اور انسانوں کا گلہ کاٹتے ہوئے بھی
یہ ایسے جاہلوں کی بھیڑ ہے جو مذہب کا نام استعمال کرتی ہے
یہ بھیڑ کسی کو نہیں چاہتی۔۔۔۔چاہتی ہے تو صرف اختیار ۔۔۔وہ بھی بے شمار
یہی بھیڑ ہے تمام تر مسائل کی ذمہ دار ۔۔۔۔یہ بھیڑ ہر ملک ، ہر معاشرے میں ہے ، اس کی کئی اقسام ہیں جن میں سے دو یہ ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ پڑھی لکھی بھیڑ ۔۔۔اَن پڑھ بھیڑ ۔۔۔۔
جب پاکستان میں ایک ”بھیڑ “ توہین مذہب کے نام پر توہین ِانسانیت کر رہی تھی تو بھارتی ریاست ہریانہ میں جنونی بھیڑ مسلمانوں کو نماز جمعہ سے روک رہی تھی اور جے شری رام کے نعرے لگا رہی تھی، رکاوٹوں کے باوجود 150 سے زائد نمازی جمع ہوئے لیکن، جنونی ہندوﺅں نے ٹرک نماز جمعہ کی جگہ پر کھڑے کر دیئے ۔پاکستان میں بھی پولیس ”بھیڑ “ کو روکنے میں ناکام رہی اور ہریانہ میں بھی بھارتی پولیس ”بھیڑ“ کو روکنے میں ناکام رہی۔ ۔۔۔۔۔
ایسی ہی ایک” بھیڑ “ نے فرانس میں زیر تعمیر یورپ کی سب سے بڑی مسجد کی انتظامیہ کو خط لکھا جس میں مسجد پر حملے اور شہید کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں ترکی کی جانب سے تعمیر کی جانے والی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ”آئپ سلطان مسجد“ کو ”اعلانِ جنگ “کے عنوان سے دھمکی آمیز خط موصول ہوا ہے۔خط میں مسجد کی تعمیر کرنے والی اسلامی تنظیم کی چیئرپرسن کو قتل اور زیر تعمیر مسجد پر بمباری کی دھمکی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ” اچھی طرح سے تیاری کرو، بدلہ شروع ہوتا ہے۔ ہم مساجد کےخلاف ہیں اور انہیں بڑے حملوں سے نشانہ بنائیں گے۔ فرانس میں اسلام کےلئے کوئی جگہ نہیں اور ملک میں رہائش پذیر مسلمانوں کو اپنے مذہب یا فرانس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا اور ہمیں یقین ہے اکثریت اسلام کا انتخاب کرے گی۔ پھر کیوں آپ لوگ فرانس میں رہ رہے ہیں؟“
کیا تمام فساد کی جڑ جہالت ہے ، لا علمی ہے ۔۔۔؟انسان کو دیگر مخلوقات سے جدا کر نے کا اہم ترین ذریعہ علم ہی ہے، دور جدید میں قوموں کے درمیان مسابقت کے میدان جنگ و جدل کی بجائے درسگاہیں بن چکی ہیں۔”بھیڑ “ اور معاشروں کی علمی درجہ بندی کی جائے تو پاکستان عالمی علمی درجہ بندی میں بھارت ، ایران، سری لنکا ، بھوٹان ، نیپال سے پیچھے اور بنگلہ دیش کے مساوی ہے۔ 100 میں سے بھارت کے 44، ایران 43، سری لنکا 42، بھوٹان41، نیپال36جبکہ پاکستان و بنگلہ دیش کا سکور35ہے۔درجہ بندی میں سوئٹزر لینڈ پہلے ، امریکہ دوسرے ، فن لینڈتیسرے ، سوئیڈن چوتھے اور ہالینڈ پانچویں نمبر پر ہیں ۔ چین 31، ملائیشیا33، قطر 39، سعودی عرب 42، روس 44، ترکی 69، اور چاڈ 138ویں نمبر پر ہیں۔ عرب دنیا میں تحقیق کے فروغ کےلئے قائم کیے گئے ادارے ”محمد بن راشد المکتوم نالج فاﺅنڈیشن “کی تیار کردہ رپورٹ ”گلو بل نالج انڈیکس 2020ء“ پر مختلف زاویوں سے تحقیق کے مطابق جرمنی 11، جاپان 12، یو اے ای 13، جنوبی کوریا 19،فرانس 20، اسرائیل 21، آسٹریلیا 23، کینیڈا24، سپین 30، چین 31، ملائیشیا 33، قطر 39، سعودی عرب اور بحرین 42، روس 44، تھائی لینڈ53، عمان58، فلپائن 60، کویت 65، ترکی 69، جنوبی افریقہ 71، مصر 72، بھارت 75، لبنان 76، اردن78، ایران 80، انڈونیشیا 81، تیونس 82، مراکش83، سری لنکا 87، کمبوڈیا 90، بھوٹان94،نیپال 110، پاکستان اور بنگلہ دیش111، شام 130اور چاڈ 138ویں نمبر پر ہے۔ یونیورسٹی سے قبل یا کالج تک کی تعلیم ، فنی تعلیم و تربیت ، اعلیٰ تعلیم ، تحقیق و ترقی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، معیشت اوران سب کےلئے ساز گار ماحول کو پیمانہ بنا کر کی جانے والی درجہ بندی کے نتائج کے مطابق سوئٹزر لینڈ 74ویلیو کے ساتھ پہلے ، امریکہ.1 71کے ساتھ دوسرے اور 70.8کے ساتھ فن لینڈ تیسرے نمبر پر ہے۔
لیکن ”بھیڑ “ کا کیا کریں جو علمی درجہ بندی دیکھ رہی ہے نہ سرحدیں نہ ریاستیں ۔۔۔۔ جو ”اختیار “ کی جنگ میں آگے ، بہت آگے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ۔۔۔مقبوضہ کشمیر، عراق ،برما ،بوسنیا،شام ، لبنان ، افغانستان میں اسی ”بھیڑ “ کی وجہ سے لاکھوں زندگیاں تباہ ہو چکیں اور اب بھی لاکھوں زندگیاں داﺅ پر لگی ہیں۔۔۔
شاید یہ سب ا س لیے بھی ہے کہ جب ” بھیڑ “ کیخلاف قدم پیچھے ہٹائے جائیں تو پھر ” ایسا تو ہو گا ۔۔۔“
شاید کوئی ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم کہنے کی جرا¿ت کرے ۔۔۔۔
ظالم کو انصاف کے کٹہرے میں لائے اور انصاف ہوتا نظر بھی آئے۔۔۔۔۔
شاید کوئی اٹھے اوریہ نعرہ لگائے ”قدم بڑھاﺅ انسانیت ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔۔۔“

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button