طیبہ بخاریکالمز

”بے حسی کا طوفان “۔۔۔۔۔ اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو….طیبہ بخاری

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو ۔۔۔۔۔یہ تصنیف تھی 1927ءمیں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہونیوالی قراة العین حیدر کی۔۔۔کہا جاتا ہے کہ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظرآتا ہے۔۔۔لیکن تقسیم ہند کے بعد بھی پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں یہ” درد“ پورے زوروں پر ہے

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو ۔۔۔۔۔یہ تصنیف تھی 1927ءمیں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہونیوالی قراة العین حیدر کی۔۔۔کہا جاتا ہے کہ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظرآتا ہے۔۔۔لیکن تقسیم ہند کے بعد بھی پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں یہ” درد“ پورے زوروں پر ہے ۔۔۔کمبخت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ناسور کی طرح بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ عالمی مبصرین و تجزیہ کار طالبان کو ”مسلسل درد سر “ کہتے آئے ہیں لیکن دیکھا جائے تو جنوبی ایشیاءمیں بیٹیاں” مسلسل دردِ معاشرہ “ بنی ہوئی ہیں ، اور یہ درد انہیں تمام تر قوانین ، جمہوری حکومتوں اور عدالتوں کی موجودگی میں پہنچایا جا رہا ہے ، نظام انصاف موجود ہے لیکن انصاف نہیں ، قانون نافذ کرنیوالے ادارے موجود ہیں لیکن قانون نافذ نہیں کر پا رہے ، حکومتیں موجود ہیں لیکن اُن کی رِٹ کہیں کھو چکی ہے ، شاید کوئی دفن کر کے دور کہیں دور بہت دور جا چکا ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں لیکن انہیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے حقوق نہیں مل پا رہے تو وہ کسی اور کے حقوق کا کیا خاک تحفظ کریں گی ۔نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹنبرگ ” نیٹوز آﺅٹ لک ٹو ورڈز 2030 اینڈ بیانڈ “ نامی سیمینار میں اپنے خطاب میںیہ تلخ حقیقت بیان کر چکے ہیں کہ ” دنیا بھر میں جمہوریت کمزور ہورہی ہے اور جمہوری اداروں پر لوگوں کا اعتماد بھی کمزور ہوتا جارہا ہے۔“ جمہور خاص کر خواتین کی کیا حالت زار ہے اس کا اندازہ لگانے کیلئے ہمارے تبصرے کی کوئی ضرورت نہیں نیٹو سیکرٹری جنرل کے خطاب کا ایک جملہ ہی ”درد “ سمجھنے کیلئے کافی ہے اور اگر کسی کو مزید گہرائی میں جانا ہے تو سیمینار کی تمام تفصیلات اور انکا خطاب انٹرنیٹ پر جا کر تفصیل سے پڑھ سکتا ہے ۔
افغانستان کے عوام کے ”درد “کو بھی نہیں سمجھا جا رہاعالمی طاقتوں کوصرف طالبان کے پہنچائے دردیاد ہیں ، انہی طالبان اور کئی دہائیوں کی اقتدار کی جنگ کے باعث افغانستان کے کروڑوں عوام اب فاقوں کے حقیقی اور شدید خطرے کی زد میں ہیں اور عالمی ادارہ خوراک سے ملنے والی خوراک پر منحصر ہو گئے ہیں جبکہ عالمی ادارے کو تقریباً 2 کروڑ 20 لاکھ افغانوں کو راشن فراہم کرنے کی مشکل کا سامنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب خود اندازہ لگا لیجیے کہ جب عالمی ادارے مشکلات کا شکار ہوں تو عام آدمی پر کیا بیت رہی ہو گی۔۔۔؟
آئیے مڈغاسکر چلتے ہیں جوماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیش آنے والے دنیا کے پہلے قحط کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ مڈغاسکر میں 4 برسوں سے بارشیں نہیں ہوئیں اس لیے ملک کی بیشتر آبادی تباہ کن حد تک بھوک اور خوراک کی قلت کا شکار ہے۔گذشتہ 4 دہائیوں پر محیط بدترین قحط نے مڈغاسکرکے جنوب میں واقع زرعی آبادیوں کو تباہ کر دیا ہے اور وہاں کے رہائشی زندہ رہنے کےلئے کیڑے مکوڑے کھانے پر مجبور ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) کی عہدیدار شیلی تھرکال کا کہنا ہے کہ’ ’یہ قحط جیسی صورتحال ہے جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے، جنگ کی وجہ سے نہیں۔‘ ‘ ۔۔۔
ماحول واقعی بدلتا جا رہا ہے، دنیا کا ماحول اور دنیا میں بسنے والوں کے” اندر کا ماحول “دونوں بدترین آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں ، اقوام متحدہ نے درست کہا کہ دنیا قحط کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ۔۔۔۔۔شاید قحط کی اقسام بھی بڑھتی جا رہی ہیں جن سے ہم واقف نہیں لیکن جس تیزی سے” ذہنی قحط “ بڑھتا جا رہا ہے اب آہستہ آہستہ یہ بھی عام ہو جائیں گی۔۔۔۔لیکن قحط کی کوئی بھی صورت ہو اس سے سب سے زیادہ متاثر ”بٹیا“ یعنی عورت ہی ہو رہی ہے اور اس کا کوئی پُرسانِ حال نہیں
بندیل کھنڈ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کا وہ علاقہ ہے جہاں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے لڑکیوں کی شادی تک نہیں ہوتی،اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے کل 13 اضلاع بندیل کھنڈ خطے کے تحت آتے ہیں۔ ان میں اتر پردیش کے 7 اضلاع ہیں۔ اس علاقے میں پانی کا بحران تقریباً سبھی جگہ سنگین ہے ۔۔۔۔۔لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعویدار ملک کی مودی سرکار کی نظریں جمہور کے مسائل پر کم ہندوتوا نظریات پھیلانے پر زیادہ ہیں۔ہریانہ میں مسلمان جمعے کی نماز مساجد میں نہیں پڑھ سکتے توبھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں پولیس کو کاغذی کارروائی میں اردو الفاظ استعمال نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے ۔اس پابندی پر خود بھارتی میڈیا چیخ رہا ہے کہ مدھیہ پردیش پولیس برطانوی راج کے زمانے سے اردو اور فارسی اصطلاحات استعمال کر رہی ہے۔۔۔۔اور اگر بھارت میں خواتین کی حالتِ زار کا ذکر کریں تو وہ انتہائی تشویشناک ہے صرف 2019ءمیںخواتین کی آبروریزی سے متعلق 18300 مقدمات کو عدالتوں نے نمٹایا اور عصمت دری سے متعلق 1 لاکھ 27 ہزار 800 واقعات التوا ءتھے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ایسا اس معاشرے میں ہو رہا ہے جہاں خواتین کو دیوی کا درجہ حاصل ہے، درگا ماں کی پوجا کی جاتی ہے۔۔۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال تو ناقابل بیان ہے ، مظلوم کشمیری خواتین بھارتی فوجیوںکی وجہ سے مسلسل خوف و دہشت ، عدم تحفظ ، ظلم و تشدد، سوگ اوراذیت کا شکار ہیں۔خواتین کےخلاف تشدد کی روک تھام کے عالمی دن پرکشمیر میڈیا سروس نے جو رپورٹ جاری کی اس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے کشمیری خواتین کے تقدس اورعصمت کو پامال کرنے کیلئے فوج کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں 30برس سے جاری بھارتی ریاستی دہشتگردی کے دوران 22ہزار 936 کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں، بھارت خواتین کی عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے بھارتی فوجی کشمیریوں کی تذلیل کیلئے خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیرمیں 1989ءسے اب تک2ہزار 300 سے زائد خواتین کو شہید، 11ہزار سے زائد کی بے حرمتی کی گئی ہے۔۔۔۔۔
کیا یہ سب ”ذہنی قحط“ کی اقسام نہیں۔۔۔؟پاکستان کا ذکر کریں تو سانحہ¿ سیالکوٹ” ذہنی قحط “ کی ہی ایک قسم نہیں تو اور کیا ہے ،سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سری لنکن فیکٹری منیجر پریانتھا کمارا کی اہلیہ نیروشی دسانیہ کے یہ الفاظ کون بھلا سکتا ہے کہ ” میرے شوہر معصوم انسان تھے،ہمیں انصاف دیا جائے۔“بے چاری نیروشی ۔۔۔۔۔ناراش مت ہونا ۔۔۔انصاف ملے گا بس آپ نے ’ ’گھبرانا “ نہیں ۔۔۔۔
جیسے قراة العین حیدر پاکستان اور بھارت کی ”سانجھی لکھاری “ ہیں بالکل اسی طرح بھارت میں بسنے والی ماﺅں بیٹیوں کا دکھ بھی سانجھاہے اور اب اس میں ایک سری لنکا کی بیٹی کا دکھ بھی شامل ہو چکا ہے۔۔۔۔ نیروشی ہمارے ملک میں بھی ہر سال غیرت کے نام پر درجنوں بیٹیاں غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔محبت کرنے پر بیٹی کو قتل کرنا ،جلا کر ما ردینا، تیزاب پھینکنا ،ہڈیاں توڑدینا۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتابلکہ یہ زہر معاشرے کی رگوں میں اند ر تک سرائت کر چکا ہے جو روزمرہ کے امور میں بھی صاف جھلکتا ہے۔۔۔بھلے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے۔۔۔محسوس کرے یا نہ کرے۔۔۔۔۔
ہماری زبانوں پر بھی سوال ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ہمارے ملک میں…؟ کیوں خواتین کیخلاف جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے….؟ کیوں روز ظلم کی اک نئی داستان دیکھنے ، سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے …؟ قانون نافذ کرنیوالے ادارے کب درندوں کو نشانَ عبرت بنائیں گے اور کب تک صرف قانون پہ قانون ہی بنائے جاتے رہیںگے ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے گا…؟ ایسے اور بھی ان گنت سوالات ہیں جن کے جواب ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور معاشرے کو دینے ہونگے وگرنہ ہمارا معاشرہ جو پہلے ہی پرسکون زندگی سے دور ہو چکا ہے مزید پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستا جائے گا …بیٹیوں کو بچانا ہو گا انہیں برابر کا نہیں تو کم سے کم انسان ہونے کا درجہ تو دینا ہو گا ۔فیصل آباد میں دن دیہاڑے خواتین کیساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ، پہلے غیرت کے نام پر ایک بیٹی کو قتل کیا جاتا تھا اب چار چار خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے ، اور یہ سب کچھ صرف ایک شہر یا صوبے تک محدود نہیں، ایسا لگتا ہے پورے ملک میں خواتین پرعرصہ حیات تیزی سے تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔ ماضی کے قصے چھوڑتے ہوئے صرف ایک واقعے کا ذکر کریں تو کوئٹہ میں مجبور لڑکیوں کی نازیبا ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کرنے کا شرمناک سکینڈل منظر عام پر آیا ہے،دھونس اور جبر کی انتہا دیکھئے کہ ملزمان کی جانب سے نازیبا ویڈیوز وائرل بھی کر دی گئیں ۔ اس سکینڈل کی جڑیں افغانستان تک پھیلی ہوئی ہیں۔۔۔۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں تو رکشے میں بیٹھی خواتین بھی محفوظ نہیں ۔۔۔۔اسلام آباد میں نور مقدم کی گردن تن سے جدا کر دی جاتی ہے ۔۔۔کاش ایسے مجرموں کو نشان عبرت بنانے کی مثال قائم ہو سکے اور ایسا جلد ہو۔
پارتھاچیٹرجی اپنی ایک کتاب نیشن اینڈ اٹس فریگمنٹس میں لکھا تھا کہ برطانوی راج کے زمانے میں ہندوستان کے لوگ جب سامراج کی جاہ وحشمت سے بوکھلا گئے تھے تو انہوں نے اپنی تہذیبی شناخت کے بحران سے نمٹنے کیلئے گھر اور باہرکی ترکیب میں پناہ لینے کی کوشش کی تھی۔اس ترکیب میں گھر سے مراد عورت اور باہر سے مراد مرد تھے۔اسکا دوسرا مطلب یہ تھا کہ عورت روایت کی پاسداری کرے گی اور مرد جدیدیت کا مقابلہ کریں گے جس کا میدان گھر سے باہر ہے۔ روایت اور جدیدیت کے درمیان اس جنگ میں روایت جیت گئی اور جدیدیت بھی لیکن برصغیر میں بسنے والی کروڑوں عورتیں ہار گئیں اور اب تک ہار کا سامنا کر رہی ہیں ،۔۔۔۔۔ہم نہیں جانتے کہ ان جنم جلیو کو کب جیت ملے گی ، ملے گی بھی یا نہیں۔۔۔۔۔؟اب ہر طرف پیٹ کا قحط ۔۔۔ذہن کا قحط ۔۔۔۔قحط کی کئی قسمیں پھیل چکی ہیں اور ساتھ میں ”بے حسی کا طوفان “ بھی ہے ۔۔۔۔جوبڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو گا ،۔۔۔
کراچی میں کچھ ایسا ہی ہوا صدرمیں واقع عمارت میں خاتون کے ہاتھوں 70 سالہ شخص کے لرزہ خیز قتل کا واقعہ پیش آیا ہے، خاتون نے مقتول کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے اور پھر آرام سے سو گئی ۔مقتول شیخ سہیل ڈاکٹر تھا،دونوں کئی سال سے ساتھ رہ رہے تھے۔ڈیڑھ سال پہلے بھی خاتون پولیس اسٹیشن آئی تھی اور بتایا تھا کہ شوہر خرچہ نہیں دے رہا، مقتول شیخ سہیل اور خاتون اکیلے رہتے تھے۔ ون فائیو سے اطلاع ملی کہ انسانی ہاتھ فلیٹ کے باہر پڑے ہیں، اندر جا کر دیکھا تو کمرے میں ایک شخص کی لاش موجود تھی، لاش کے ہاتھ اور پیر نہیں تھے، سر بھی جسم سے الگ تھا جبکہ دوسرے کمرے میں خاتون آرام سے سو رہی تھی۔پولیس حکام کے مطابق خاتون قتل سے انکاری ہے جبکہ سارے شواہد اس کےخلاف ہیں، خاتون کے ہاتھ اور کپڑوں پر خون کے دھبے موجود ہیں، مقتول کی پہلے سے ایک شادی بھی ہے۔ ملزمہ کے مطابق وہ مسلمان نہیں، مقتول مسلمان تھا۔۔۔۔۔۔
ہمارا معاشرہ بھی سو رہا ہے۔۔۔ اتنے ”درد “ کے باوجود گہری نیند ۔۔۔۔جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔۔۔آنکھ نہ کھلی تو اعضاءبکھرے ملیں گے اور کوئی ”ون فائیو“ پر کال کرنیوالا بھی نہیں ہو گا ۔۔۔۔فی الحال تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو ۔۔۔“

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button