ارے میاں، معافی کس بات کی؟ …. حیدر جاوید سید
سوال بہت سادہ ہے وہ یہ کہ آخر مریم نواز اور پرویز رشید معافی کیوں مانگیں کیا جن دو افراد (صحافیوں) کا نام لے کر انہوں نے سستے الفاظ استعمال کئے ، کیا وہ دونوں اپنے ٹی وی پروگراموں میں مہذب زبان استعمال کرتے ہیں؟
یا یوں کہ انہیں ’’لائسنس ٹو کل‘‘ حاصل ہے کہ وہ جس کے مرضی کپڑے اتاریں، جسے مرضی گالی دیں، ایجنسیوں کے فراہم کردہ کاغذات کی بنیاد پر میڈیا ٹرائل شروع کردیں اس ٹرائل میں مدعی، وکیل اور جج وہی ہوں؟
اور سزائیں سنانے جُت جائیں ، معاف کیجئے گا میں ان دوستوں سے بالکل متفق نہیں جو آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں کہ معافی مانگو ،
ارے بھئی کیوں معافی مانگیں آپ طرم خان ہیں۔ یہ ساری دنیا کرپٹ ہے اور آپ سادھو؟
کسی دن اپنے گریبان میں جھانک کر (اگر ہو تو) دیکھیں۔ آپکے اپنے تضادات کتنے ہیں۔ آپ گھر سے اسلام آباد آئے تو دو جوڑے کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا آپ کے پاس۔ بار ٹینڈر بنے پھر بارکا ’’مال‘‘ دروازے تک سپلائی کرنے والے ڈلیوری بوائے ، ہاشوانی تک کیسے پہنچے اور پھر آبپارہ شریف کے حلقہ ارادت میں کیسے داخل ہوئے۔ زندگی کو ’’پَر‘‘ کیسے لگے۔
یہی اصل مسئلہ ہے ہم صحافیوں کا اور “بنادیئے” گئے صحافیوں کا کہ ہم اپنے کج نہیں دیکھتے مگر ہر شخص کے گریبان سے ا لجھنا چاہتے ہیں۔
مالدار طلاق یافتہ یا بیوہ سے شادی کرکے اسے اذیت بھری زندگی دے کر سودا کرتے ہیں۔ نبھانے والے اچھے لوگ ہیں لیکن چھوڑنے کا ’’ٹیکس‘‘ لے کر دولت مند ہوئے اُن کو بات کرنے سے قبل سوچنا چاہیے۔
آپ پیپلزمیڈیا سیل کے نام پر پورے 19ماہ 18لاکھ روپے وصول کرکے ہڑپ کرجائیں اور جب آپ کی لوٹ مار کا راز کھلے اور محترمہ بینظیر بھٹو اس بات پر ناراض ہوں کہ پیپلز میڈیا سیل کے دیگر ارکان کو آپ نے 19ماہ ایک پھوٹی کوڑی نہیں دی تو آپ رنج و غصہ میں گردن تک دھنس جائیں۔
پھر اپنی ذات پر شرفیین کی مہربانیوں کو بھی بھول جائیں۔ کہانی بڑی طویل ہے لکھنے کا فائدہ کوئی نہیں یہاں جھوٹ کے جہاز اڑتے ہیں۔ بدلحاظ شخص کو ’’نیکوکار‘‘ اور الف ننگے کو ولی سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے جو دوست کہہ رہے ہیں مریم نواز اور پرویز رشید کی زبان درست نہیں تھی (آڈیو میں) کیا ان کی زبان درست ہوتی ہے چینلوں پر بولتے وقت، کیا میرے سابق مجاہد اور حاضر صحافی یہ بتانا پسند کریں گے کہ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی سفارتخانے کے ملٹری اتاشی کی مہربانی سے جو امریکی ’’بلیک کیٹ‘‘ والوں کوویزے جاری ہوئے وہ انہوں نے کس کے کہنے پر اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے کھاتے میں ڈالے تھے؟
چلیں پرانی باتیں رہنے دیجئے ورنہ یہ بھی پوچھا جاسکتاہے کہ (ن) لیگ کے آخری ایام (نوازشریف والے) میں آپ نے سی پیک کے خلاف جو سلسلہ وار کہانیاں لکھیں اس کا حکم کہاں سے آیا تھا۔
ہم تازہ یوں کہیں حال کی بات کرتے ہیں پچھلے سال پی ڈی ایم کے قائدین کو آپ فرمارہے تھے
’’اگر اپوزیشن کرنی ہے تو پیپلزپارٹی کو لات مار کر پی ڈی ایم سے باہر نکالیں‘‘۔ لات مار کر نکالیں کبھی سوچئے کہ ان الفاظ میں صحافت کتنی ہے اور اخلاقیات کتنی۔ کیا پیپلزپارٹی نے بھی کبھی شکیل الرحمن سے کہا کہ ’’اسے لات مار کر اپنے ادارے سے نکالیں؟‘‘۔
ارے بھائی کس چیز کی معافی طلب کررہے ہیں آپ لوگ مریم نوازاور پرویز رشید سے۔ چند سخت الفاظ کی جو لوگ دو دن میں بھول جائیں گے۔ آپ لوگ معافی کیوں نہیں مانگتے ان میڈیا ٹرائل پروگراموں کی جن کی وجہ سے ڈاکوئوں کی پردہ پوشی ہوئی اور جمہوریت کو گالی بنادیا گیا۔ سیاستدان چور قرار پا ئے۔
اس ملک میں صحافتی بدزبانی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ آپ میں سے بعض تو اس وقت پیدا نہیں ہوئے ہوں گے یا ہو بھی گئے ہوں گے تو بنیان یا نیکر پہنے گلی میں کھیلتے ہوں گے جب اس ملک کے بعض اخبارات اور اسلامی جرائد میں ذوالفقار علی بھٹو کو گھاسی رام لکھا گیا۔
کہا گیا یہ ہندو ماں کا بیٹا ہے اس کی تو ’’مسلمانی‘‘ تک نہیں ہوئی۔ اس کہانی کا جادو اتنا سر چڑھ کر بولا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد بطور خاص انکی مسلمانی چیک کی گئی (راوی تو کہتاہے باقاعدہ تصویر بنائی گئی تھی)
ایک مسلمان ماں باپ کی اولاد کو گھاسی رام ، ہندو ماں کا بیٹا ، مسلمانی سے محروم شخص لکھنے والوں نے کبھی معافی مانگی؟
اچھا جنہوں نے لکھا وہ بھی کبھی آپ کے خاندانی پس منظر کے عین مطابق کنگلے تھے اب ارب پتی ہیں۔ دھن ان پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں برسا اور پھر جناب نوازشریف کے ادوار میں۔
معاف کیجئے گا یہی چند ایک حوالے کافی ہیں۔ اس ملک میں ہمیشہ اسی طرح ہوا جیسا آپ کرتے ہیں۔ یہاں ذرائع ابلاغ کے 99فیصد حصے نے بھٹو خاندان کے خلاف نفرت بھری مہم چلائی اور فیض پائے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صحافتی اقدار اور روایات گئیں تیل لینے۔ آپ سب نے ایک خاص طبقے کے مفادات کے تحفظ کیلئے جمہوری سیاست کو گالی بنادیا۔
مریم اور پرویز رشید نے غلط کہا نہیں کہنا چاہیے تھا لیکن درست کیاہے وہ جو آپ لوگ کرتے کہتے لکھتے ہیں۔
مکرر معافی کاخواستگار ہوں اس ملک میں بدزبانی میں مہارت اعلیٰ درجہ کا تجزیہ نگار بنادیتی ہے اور آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کی ارادت مندی بڑا صحافی اور دانشور۔ یاد کیجئے یہاں کس کس نے محترمہ بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کو کون سی گالی ہے جو نہیں دی لیکن جواب میں ان دونوں خواتین اور ان کے ہمدردوں نے پلٹ کر گالی نہیں دی تھی۔
اب بولیں ذرا سُر سے اونچا جواب دیں ، تبدیلی والے اگلے تو ننگی گالیاں دیتے ہیں۔ یہ گالیاں روزانہ آپ اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر پڑھتے ہیں۔
ایک قلم مزدور کی حیثیت سے میں محترمہ مریم نواز اور پرویز رشید کے الفاظ سے دکھی ہوا ہوں انہیں یہ الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں تھے لیکن جب آپ اٹھتے بیٹھتے دوسروں کی تذلیل کرنے کو صحافت قرار دیں گے تو ردعمل آئے گا۔
اس طور تو بالکل آئے گا جب آپ کے اپنے الفاظ اس بات کی تصدیق کررہے ہوں کہ آپ کسی کی مخالفت کسی کی اندھی محبت میں کررہے ہیں کسی کی چوری پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسروں کو ڈاکو ثابت کررہے ہیں۔
آپ کے الفاظ بتارہے ہوں کہ آپ کسی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ جو بات آپ بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ جیسے صحافت کو آپ لوگوں نے درباری مسخروں کا رزق بنادیا ہے ویسے ہی سیاست بھی اب نظریات کی بجائے خاندانوں کی بالادستی اور اقتدار کا نام ہے۔
ان حالات میں بدزبانی کا جواب ملی نغمہ سناکر کوئی نہیں دیتا اور گالی کے جواب میں عاقبت کی خیر ہو، کی دعائیں نہیں ملتیں بلکہ ترکی بہ ترکی جواب آتا ہے۔
وہ بینظیر بھٹو تھی جس نے گالیاں سنیں اور آنکھوں میں آنسو لئے خاموش رہی۔ اب اگلے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں بلکہ ’’گولی‘‘ سے دیتے ہیں۔
یاد کیجئے ایک الطاف حسین بھائی ہوا کرتے تھے، وہ ایک شعر پڑھا کرتے تھے
’’ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جیسا تم کرو گے ویسا ہم کریں گے‘‘۔
اب یہی ہورہا ہے۔ وہ دن یاد کیجئے جب پستول بردار اخبارات کے نیوز روم میں داخل ہوکر خبر نیوز ایڈیٹر کے سامنے رکھ کر بتاتے تھے یہ خبر چار کالم صفحہ اول پر اپر ہاف میں لگے گی، سمجھ گئے؟
بات طویل ہوگئی مختصر کرتے ہیں۔
آپ لوگ چاہتے ہیں کہ مریم اور پرویز رشید معذرت کریں تو اپنے اطوار گفتار اور معاملات کو تبدیل یعنی بہتر کیجئے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ ’’بھونپو‘‘ بننے کی بجائے واقعی صحافی بنیئے پھر اگر کوئی زبان درازی کرے گا تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔