پاکستان ببنے کا 73 سال گزر گئے مگر کریم آباد چترال کی سڑک ابھی تک نہ بن سکی
پاکستان ببنے کا 73 سال گزر گئے مگر کریم آباد کی سڑک اب بھی نہ بن سکی۔علاقے کے عوام ابھی بھی اپنی مدد آپ کے تحت اس سڑ کی مرمت کرتے ہیں
چترال پاکستان(وائس آف پیپل)پاکستان بننے کا 73 سال گزر گئے مگر وادی کریم آباد اور سو سوم کا سڑک ابھی تک نہ بن سکا۔ 13000 آبادی پر مشتمل اس خوبصورت وادی کے لوگ اب بھی سڑک سے محروم ہیں۔ کریم آباد ڈیویپلمنٹ مومنٹ کے رہنماء عیسیٰ خان نے بتایا کہ اس سڑک کا تین مرتبہ افتتاح بھی ہوچکا ہے اور پچھلے ماہ اقلیتی امور پر وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ کے معاون حصوصی وزیر زادہ کیلاش نے عوام کو خوشحبری بھی سنائی تھی کہ اس کیلئے وزیر اعلےٰ نے چالیس کروڑ روپے مزید منظور کئے ہیں مگر ابھی اس کا ثمرہ عوام تک نہیں پہنچا۔
سابق ڈسٹرکٹ نائب ناظم سلطان شاہ نے بتایا کہ اس سڑک پر اب تک 38 لوگ محتلف حادثات میں جاں بحق ہوچکے ہیں اور متعدد زحمی ہوئے ہیں۔ سلطان شاہ جو بیساکھی کے سہارے چلتا ہے انہوں نے مزید بتایا کہ میں خود اس کا ایک زندہ مثال ہوں میں اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا جس میں کئی لوگ جاں بحق ہوئے اور متعدد زحمی جن میں سے میں بھی ایک تھا میری ٹانگ ٹوٹ گئی سر میں گہرے زحم آئے اور میں کراچی جاکر ایک نجی ہسپتال میں علاج کے بعد اس قابل ہوا کہ اب میں لاٹھی کے سہارے چلتا ہوں اللہ نے مجھے نئی زندگی گی۔انہوں نے کہا کہ اس سڑک کیلئے دس کروڑ روپے منظور ہوئے تھے اور ٹھیکدار نے کام بھی شروع کیا تھا مگر تھوڑا سا کام کرنے کے بعد ٹھیکدار غائب ہوگیا اور کام کو ادھورا چھوڑ۔ علاقے کے لوگوں نے الزام لگایا کہ جاوید نامی ٹھیکدار نے سڑک پر تھوڑا سا کام کیا مگر محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس یعنی C&W کے ساتھ ملی بھگت کرکے کام ادھورا چھوڑ کر چلے گئے اور لگتا ہے کہ اس محکمہ نے ماضی کی طرح اس سڑک کو بھی کاغذات میں مکمل تعمیر شدہ ظاہر کیا ہوگا۔
اس علاقے کا سماجی کارکن شہباز خان نے بتایا کہ اس سڑک میں اتنی دشواریاں ہیں کہ لوگ خد ا خدا کرکے اپنے گھر پہنچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی پاکستانی ہیں ہمارا بھی حق ہے کہ ہمیں حکومت سڑک بنا کر دے۔
بی بی نصرت نے بتایا کہ اس سڑک کی حالت اتنی حراب ہے کہ مریض کو ہسپتال پہنچاتے وقت ہر وقت حطرہ رہتا ہے حاص کر خواتین کو زچگی کے دوران جب اس حطرناک سڑک پر لے جاتے ہیں تو وہ یا تو راستے ہی میں دم توڑدیتی ہے یا پھر گاڑی ہی می زچگی ہوجاتی ہے۔ اس سڑک کے ایک طرف سنگلا ح پہاڑ تو دوسری جانب ہزاروں فٹ گہری کھائی اور دریا بہتا ہے اگر گاڑی کی بریک فیل ہوجائے تو وہ ہزروں فٹ نیچے جاکر گرنے سے اس میں کوئی بھی زندہ نہیں بچتا ہے۔
صفدر علی اس سڑک پر پچھلے 17 سالوں سے گاڑی چلاتا ہے وہ کہتا ہے کہ ہم نہایت حطرے کی حالت میں ڈرایونگ کرتے ہیں اور راستے میں خد خدا کرکے چترال پہنچتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس سرک پر جتنے بھی گاڑیاں گزرتی ہیں ان سب ڈرائیور کے پاس بلچہ کودال ضرور ہوتا ہے جہاں کھڈا نظر آئے تو گاڑی سے اتر کر اس میں مٹی ڈالتے ہیں اور پتھر ہٹا کر گاڑی کو آگے لے جاتے ہیں
اس سلسلے میں جب ایگزیکٹیو انجنیر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو انجنیر طارق مرتضےٰ سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سڑک کا افتتاح وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ نے کیا تھا اور انہوں نے اس کے ساتھ تین مزید سڑکیں بھی شامل کی تاہم فنڈ آنے کے بعد اس پر کام کا آغاز کردیا جائیگا مگر انہوں نے عوامی شکایت کے نسبت کچھ نہیں بتایا کہ جاوید نامی ٹھیکدار نے فنڈ کھا کر کام ادھورا چھوڑا اور محکمے کے افسرا ن کی جیب کو گرم کرکے غائب ہوگیا۔ وادی کریم آباد کے عوام وزیر اعلےٰ خیبر پحتون خواہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس وادی کی سڑک کا تین مرتبہ افتتاح ہونے کے باوجود بھی اس پر کام شروع نہیں ہوا سے جلد از جلد مکمل کرے اور جو دس کروڑ روپے اس کیلئے پہلے منظور ہوئے تھے اس کے حوالے سے تحقیقات کی جائے کہ ٹھیکدار اور محکمہ کے افسران کے ملی بھگت سے وہ فنڈ کہاں اور کیسے خرچ ہوا اور اسے کس نے ہڑپ کیا۔