ارون دھتی رائے کی بے باک رائے…انعام الحسن کاشمیری
61سالہ ارون دھتی رائے، بھارت کی معروف مصنفہ اور دانشور ہیں جن کی وجہ شہرت ان کی بے خوفی، نڈری اور بھارت کے دوغلے پن اور نقاب میں چھپے چہرے پر سخت تنقید کرنا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہندوازم کے لبادے میں چھپے استحصالی نظام پر نکتہ چینی کرتی چلی آئی ہیں
61سالہ ارون دھتی رائے، بھارت کی معروف مصنفہ اور دانشور ہیں جن کی وجہ شہرت ان کی بے خوفی، نڈری اور بھارت کے دوغلے پن اور نقاب میں چھپے چہرے پر سخت تنقید کرنا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہندوازم کے لبادے میں چھپے استحصالی نظام پر نکتہ چینی کرتی چلی آئی ہیں۔ انھوں نے بھارت کی ان پالیسیوں پر بھی سخت تحریریں لکھیں، جنھیں ”شائننگ انڈیا“ کا نام دے کر دراصل اپنے ہی لوگوں کے حقوق کو بری طرح مجروح کیاگیا ہے۔ ارون صاف طور پر کہتی ہیں کہ بھارت کے دو چہرے ہیں ایک جو وہ عوام اور دنیا کو دکھاتاہے اور دوسرا وہ جسے وہ ان دونوں سے چھپاتاہے۔ اس دوسرے چہرے کو بے نقاب کرنے میں ارون دھتی رائے کی تحریروں کو بڑا عمل دخل حاصل ہے۔ بھارت کا ایسا ہی خوفناک چہرہ کشمیر کے حوالے سے بھی ہے جہاں خون، پیپ اور لتھڑی ہوئی آلائشوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ارون نے اس حصے کو بھی جس بے باکی کے ساتھ بیان کیا ہے، اس سے دنیا کو یہ معلوم ہوگیاہے کہ صرف خود کشمیری یا ان کے خیر خواہ ہی یہ نہیں کہہ رہے کہ بھارت ڈیڑھ کروڑ سے زائد انسانوں کے حقوق کاپون صدی سے استحصال کررہاہے، بلکہ خود بھارت کے اندر سے بھی اس کے متعلق توانا آوازیں اٹھ رہی ہیں جو بڑی تیزی اور سرعت کے ساتھ نام نہاد جمہوریت کا پردہ چاک کرتے ہوئے، ہندوازم اور بھارتی قومیت کے خون آشام چہرے کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ ان آوازوں میں پچھلی ایک ڈیڑھ دہائی سے سب سے توانا اور مضبوط آواز اس صنف ِ نازک کی ہے جس نے اپنی ناتوانی اور ڈھلتی عمرکے باوجود بڑی جرأت اور بہادری کے ساتھ کشمیریوں کے کرب، دکھ اور درد کو بیان کرنے کی جسارت کی ہے۔ اس سے دنیا کو ایک دوسری سمت کے بیانیے سے بھی آگاہ ہونے کا موقع میسرآیا ہے اور اس طرح انھیں معلوم ہوگیا ہے کہ جو کچھ ریاست میں ہورہاہے اور اس کے متعلق جو آوازیں لائن آف کنٹرول کے آر پار سے مرتعش ہورہی ہیں، وہ محض پراپیگنڈہ نہیں بلکہ ان آوازوں کے مرتعش تاروں اور ان کی گونج میں ہر سو سچائی اور حقیقت ہی دکھائی دیتی ہے صرف انھیں سننے، دیکھنے اور جاننے کے لیے دل اور دماغ کو زندہ ہونا چاہیے اور کسی ایک طرف کے جھکاؤ کے بجائے انصاف سے کام لینے کی روایت کا حامل ہونا چاہیے۔
عمررسیدہ ارون نے ایک بار پھر کشمیر کی بات کرتے ہوئے بھارت کے مستقبل کو سخت خطرے کاشکار ہونے کی بات کی ہے۔ ارون کہتی ہیں کہ کشمیر ایک چھوٹا خطہ ہے اور وہاں آزادی کی جنگ لڑنے والے طاقتور نہیں اور نہ ان کے پاس اس قدر وسائل موجود ہیں جووہ ایک بڑے ملک کے خلاف لڑائی میں جھونک سکیں، جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر بھارت کو ہرا نہیں سکتا لیکن یہ طے ہے کہ کشمیر بھارت کو کھا جائے گا۔بھارت کو کھاجانے والی بات کرکے ارون نے دراصل اس فسطائیت سے لتھڑے نظام کی جڑوں پر کاری وار کیا ہے، جو اس وقت بھارت کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ ارون نے واضح طور پر نریندار سنگھ مودی اور ان کی جماعت بھارتی جنتا پارٹی کی پالیسیوں، ان کے تشکیل کردہ نظام اور ان کے مستقبل کے ارادوں کو چاک کرنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے۔ اس کے لیے لازمی نہیں کہ سارے بخیے ہی ادھیڑے جائیں۔ بس ایک سرا دوسروں کو دکھاناہوتاہے پھر وہ اپنے اپنے ہاتھ میں پکڑے ان سروں سے سارے بخیے خود ہی ادھیڑ ڈالتے ہیں۔ یہی کچھ ارون نے بھی کیا ہے۔ ارون نے ہندو ازم سے بھارت کو پہنچنے والے نقصان کا بھی ذکرکیا ہے اور کہاہے کہ یہ لوگ بھارت میں رہنے والی دوسری قوموں اور اقلیتوں پر سخت مظالم ڈھا رہے ہیں۔ ہندو قوم پرستی یوگوسلاویہ اور روس کی طرح بھارت کے ٹکڑے ٹکرے کر سکتی ہے۔ارون کہتی ہیں کہ بھارت کی موجودہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے تاہم مجھے امید ہے کہ بھارتی عوام بالآخر نریندر مودی اور بی جے پی کی فسطائیت کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ بھارتی عوام جس گڑھے میں گرے ہوئے ہیں وہ اس سے باہر نکل رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں بھارت نے ایک بلوائی ملک کے طور پر شناخت پائی ہے۔ دن دیہاڑے سڑکوں اور چوراہوں میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں اور دلتوں کو سرعام کوڑے مارے، تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اس عمل کی ویڈیو یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دی گئی۔ کشمیری بھارت کا حصہ کیوں بننا چاہیں گے، آزادی وہی ہے جو وہ چاہتے ہیں، آزادی وہی ہے جو انہیں حاصل ہونی چاہیے۔ بھارت میں جمہوریت محض دکھاوا ہے۔ پولیس‘ عدلیہ‘ فوج اور تعلیمی اداروں پر ہندو انتہا پسندوں کا قبضہ ہے۔ مودی خود بھی آر ایس ایس کا حصہ ہیں اور یہ کہ انھوں نے بطور وزیراعظم اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔
ارون نے اپنی تحریرو ں سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی درست تصویر کشی کرتے ہوئے بھارتی پراپیگنڈہ، اس کی غلط بیانی اور دنیا کو گمراہ کرنے کی روش کو بے نقاب کیاہے۔ ایک ایسی خاتون جو مسلمان نہیں اور جو کشمیری بھی نہیں بلکہ اس کا تعلق شورش زدہ ریاست میگھالیہ سے ہے (میگھالیہ بھارت کے شمال مشرق میں ان سات ریاستوں میں سے ایک ریاست ہے جنھیں ”سیون سسٹرز سٹیٹس“ کہاجاتا ہے اور ان سب میں علیحدگی پسندتحریکیں مصروف عمل ہیں) تو یہ خاتون جب مظلوم اور کچلے ہوئے لوگوں کے لیے انصاف اور آزادی کی بات کرتی ہے تو اس کی بات میں بڑا وزن ہوتاہے۔ کشمیر کا کمبل بھارت کو آخر کار چھوڑنا ہی پڑے گا اور اگر اسے نہ چھوڑا گیا تو یہ بھارت کو لے ڈوبے گا۔ارون اور ان جیسے دیگر انصاف پسند دانشور یہ سمجھ چکے ہیں لیکن افسوس کہ مودی سرکار اور ہندتو ا کے علم بردار اس حقیقت کو جاننے اور سمجھنے سے خود کو عاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک بھارت ایشین ٹائیگر ہی نہیں سپرپاور بننے کی شاہراہ پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے لیکن طالبہ مسکان کو حجاب پہننے کی پاداش میں اسے اوردیگر مسلم طالبات کو ہراساں کرنے اور پھر اس کے خلاف سخت احتجاج کا جو سلسلہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں پھیلا ہواہے یہ اور کشمیر کا قضیہ دراصل وہ زنگ ہیں جوبھارت کی ترقی کو ترقی معکوس اور پھر زوال پذیر ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے۔ درد کو محسوس کرنے والے اس حقیقت کا ادراک کرچکے ہیں، اب انھیں اس کی آگہی ہونا باقی رہ گیا ہے جو پالیسی ساز ہیں۔ کامیابی تو یہ ہے کہ وہ ٹھوکر لگنے سے قبل ہی اس کا ادراک کرکے اپنا راستہ بدل ڈالیں لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو انھیں کھائی کی نذر ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔