حکومتی پالیسیاں : معاشی خدشات میں اضافہ، ایف بی آر حکام نے سرپکڑ لیے
ملک میں موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے معیشت کی بہتری کیلئے اب تک کیے جانے والے اقدامات سے فی الحال کوئی بڑی کامیابی دیکھنے میں نہیں آئی۔
اسلام آباد : ملک میں موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے معیشت کی بہتری کیلئے اب تک کیے جانے والے اقدامات سے فی الحال کوئی بڑی کامیابی دیکھنے میں نہیں آئی۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی خاطر خواہ کمی نہ آسکی اور نہ ہی پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں جم کر کھڑا ہوسکا ہے۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکس آمدن میں کمی کے خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں، گزشتہ مالی سال کی طرح ٹیکس آمدن کا مقررہ ہدف اس بار بھی حاصل نہ ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف بی آر محصولات میں500 ارب روپے تک کمی کا امکان ہے، درآمدی بل میں کمی سے ایف بی آر کو150ارب کا ٹیکس شارٹ فال ہوسکتا ہے۔
ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق رواں مالی سال درآمدی بل میں12ارب ڈالر تک کمی کا امکان ہے، اس کے علاوہ امپورٹ حجم کم ہونے سے سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے اہداف میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔
اس بار سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی مد میں350 ارب روپے کمی کا خدشہ ہے، کسٹمز، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس پر مجموعی500 ارب ریونیو شارٹ فال ہوسکتا ہے۔
حالیہ اعداد و شمار کی صورتحال دیکھ کر ایف بی آر حکام نے سرپکڑ لیے اور آئی ایم ایف عہدیداران کو بھی مذکورہ خدشات سے آگاہ کردیا گیا ہے۔
ایف بی آر ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے ٹیکس آمدن میں کمی کے امکانات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے تاہم شارٹ فال گیپ پورا کرنے کیلئے ایف بی آر مؤثر اقدامات اٹھارہا ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ٹیکس اہداف کی مکمل طور وصولی کیلئے غور و خوص کی جارہا ہے اس سلسلے میں ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائیاں مزید تیز ہونے کا بھی امکان ہے۔