سرخ لکیر………!!!…امجد عثمانی
ہمارے سکینڈل زدہ سیاستدان اپنی اپنی پارٹی کے لیے”ریڈ لائن”ہیں تو ریاستی اداروں کی بھی ایک “سرخ لکیر” ہے…
ہمارے سکینڈل زدہ سیاستدان اپنی اپنی پارٹی کے لیے”ریڈ لائن”ہیں تو ریاستی اداروں کی بھی ایک “سرخ لکیر” ہے…..شاید تاریخ میں پہلی بار پاک فوج کے انٹیلی جنس چیف کو کسی “سیاسی موضوع” پر ذرائع ابلاغ کے سامنے آنا پڑا…….صرف ایک سو منٹ کی پریس کانفرنس نے عمران خان صاحب کے مہینوں پر محیط “سازشی بیانیے”کو خزاں کے پتوں کی طرح بکھیر دیا…..
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ساتھ میڈیا ٹاک میں سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں…….جنرل ندیم انجم نے درست استفسار کیا کہ اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے…اگر سپہ سالار غدار ہے تو ملازمت میں توسیع کیوں دینا چاہتے تھے…اگر سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی اس سے چھپ کر کیوں ملتے ہیں؟؟؟؟ انہوں نے کہا کہ رات کو آپ ہم سے غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں وہ آپ کا حق ہے لیکن پھر دن کی روشنی میں جو کہہ رہے ہیں وہ نا کہیں…..آپ کی گفتگو میں کھلا تضاد ہے…..!!!!……انہوں نے بتایا کہ نیوٹرل،جانور،میر جعفر اور میر صادق اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ ہم نے غیر قانونی کام سے انکار کیا…..
انہوں نے کہا کہ محاسبہ کریں لیکن پیمانہ بھی رکھیں کہ میں ٹھیک کام کر رہا ہوں…..
جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ہم سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن ہم غدار اور سازشی نہیں….ماضی میں ہوئی غلطیوں کو بیس سال سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں….انہوں نے سائفر کو من گھڑت کہانی قرار دیا…..انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جاننا ضروری ہے کہ عرب امارات میں ارشد شریف کی رہائش کا بندوبست کس نے کیا…..کس نے انہیں کہا کہ پاکستان میں ان کو خطرہ اور کینیا میں ان کی جان محفوظ ہے….کس نے کہا کہ صرف کینیا ویزا فری ملک ہے….کینیا میں ان کا میزبان کون تھا….ان کا ارشد سے کیا تعلق تھا…..کیا وہ ان کو پہلے سے جانتے تھے؟؟؟؟؟
اچھا ہوتا عمران خان صاحب ایک ایک سوال کا دلیل کے ساتھ جواب دیتے مگر وہ کنٹیر پر چڑھ گئے ہیں اور ایک مرتبہ پھر اداروں کو للکارنا شروع کر دیا ہے….
کوئی ان سے پوچھے کہ اپنے ملک کی فوج کے لیے نیوٹرل…..ہینڈلر…..جانور…..میر جعفر اور میر صادق ایسی توہین آمیز اصطلاحات کون سی سیاست ہے؟؟
ہر بات پر کہتے ہو کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے؟؟
میر کارواں کے جو اوصاف علامہ اقبال نے گنوائے وہی شخصیت کو نکھارتے ییں…..نگہ بلند…..سخن دل نواز…….جاں پرسوز……
وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا اور سوچ سوچ کر بولتا ہے کہ کتنے ہی لوگ اس کے نقش قدم پر ہوتے ہیں….
قومی لیڈر کی گفتگو انتہائی” سکرپٹڈ” ہوتی ہے….. لڑی میں پروئے موتیوں کی طرح مرطوط بیانیہ…..ضروری نہیں کوئی تحریر ہی سکرپٹ ہو…..حاشیہ خیال پر اترے غیر تحریری تخیلات بھی سکرپٹ ہی کہلاتے ہیں…..سکرپٹ دماغ کی سکرین پر ابھرتا اور پھر زبان کی زینت بنتا ہے……گفتار میں تکرار ایک نقص ہے…..طوالت بھی گراں گذرتی ہے…..قائد اعظم بہت کم بولے مگر ان کا فرمایا مستند ٹھہرا اور وہ “قومی بیانیہ” بن گیا……
مکرر عرض ہے کہ بندہ خوب صورت بھی ہو،خوش گفتار بھی اور عالی دماغ بھی ہو،کم ہی خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ تینوں اوصاف ایک ساتھ پائے جاتے ہیں……کئی لوگ خوش شکل ہوتے ہیں مگر عقل سے پیدل ہوتے ہیں،کچھ گفتگو اچھی کرتے ہیں مگر عملی طور پر نکمے ہوتے ہیں،کئی بہت ذہین ہوتے ہیں مگر بات کرنے کا ڈھنگ نہیں ہوتا……
دوستوں کے دوست جناب تنویر عباس نقوی یاد آگئے….وہ ایک مرتبہ اسلام آباد سے داتا کی نگری آئے تو ان کے ساتھ وفاقی پولیس کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک صاحب بھی تھے……لاہور پریس کلب میں چائے پیتے انہوں نے اپنے “رفیق سفر” کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ بھائی بہت اچھے شاعر ہیں…..ایک کتاب بھی لکھ چکے……اچانک ان کی” رگ ظرافت” پھڑکی اور بولے میرے ممدوح بہت مہذب ،متمدن اور مدبر ہیں مگر جب تک خاموش رہیں….بھائی جی نے لب کھولے نہیں،ان کی” سندر شخصیت” کا بت پاش پاش ہوا نہیں …….مہمان شاعر سمیت سب نے قہقہہ لگایا اور محفل برخاست ہوگئی…..
بدقسمتی سے ہمارے ہاں سوچ کر بولنے نہیں بول کر سوچنے کا کلچر ہے…..صرف عمران خان ہی نہیں باقی سیاستدان بھی انیس بیس کے فرق کے ساتھ اسی” قماش “کے ہیں…..کبھی نواز شریف اور زرداری بھی یوں ہی تلخ تھے…..ابھی چند دن پہلے ایک تقریب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول زرداری نے انتہائی “ڈفر گفتگو “کی اور پھر اپنے” بے قاعدہ بیان” سے رجوع بھی کرلیا…..اسی تقریب میں ن لیگ کے مستعفی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی موجودگی میں فوجی ادارے کیخلاف شرمناک نعرے بازی بھی ہوئی….انہوں نے سٹیج نہ چھوڑا وزارت چھوڑنی پڑ گئی…..
سیاستدانوں کی غیر محتاط گفتگو نے کالج زمانے میں پڑھی اانگریزی نظم “شکاری” یاد دلا دی….ایڈورڈ لوبری نے اس نظم میں افریقہ کی ایک لوک داستان کو بڑے سبق آموز پیرائے میں بیان کیا ہے کہ فضول گفتگو کتنی نقصان دہ ہے……
کاگوا شیروں کا شکاری تھا
وہ نیزا لیے جنگلوں میں گھوما کرتا..
ایک دن اسے انسانی کھوپڑی ملی
اس نے کھوپڑی سے پوچھا تو یہاں کیسے پہنچی..
کھوپڑی نے منہ کھولا اور کہا زبان طرازی مجھے یہاں لائی……
کاگواگھر کو دوڑا،بادشاہ کے دربار پہنچا اور بولا :میں نے جنگل میں باتیں کرتی کھوپڑی دیکھی…
بادشاہ خاموش رہا پھر اہستہ سے بولا: جب سے میری ماں نے مجھے جنم دیا ہے میں نے ایسی کھوپڑی بارے سنا نہ دیکھا جو بولی ہو…
بادشاہ نے اپنے محافطوں کو بلایا اور دو سے کہا کہ اس کے ساتھ جائو اور باتیں کرنے والی کھوپڑی کو دیکھو…
لیکن اگر داستان جھوٹی ہو اور کھوپڑی کچھ نہ بولے پھر کاگوا کا سر قلم ہونا چاہیے….
وہ بھگی پر سوار پر جنگل پہنچے کئی دن اور راتیں ڈھونڈتے رہے مگر کچھ نہ ملا..
آخرکار انہوں نے کھوپڑی دیکھی
کاگوا نے اس سے پوچھا تم ادھر کیسے پہنچی؟
کھوپڑی نے کوئی جواب نہ دیا..
کاگوا نے منت سماجت کی لیکن کھوپڑی خاموش رہی…
محافظوں نے کہا گھٹنوں کے بل جھکو اور اس کی گردن اڑادی…
کھوپڑی نے منہ کھولا اور بولی شکاری یہاں کیسے آئے؟
مردہ جان نے جواب دیا زبان طرازی مجھے یہاں لائی…
گفتگو کے بھی کچھ آداب ہیں اور زبان کے لیے بھی ایک…سرخ لکیر….طے ہے….لہجہ توازن کھودے تو” بیا نیے” الجھ جاتے ہیں….نواز شریف نے مشیروں کی بولی بول کر بھگت لیا….عمران خان بھی محاذ آرائی پر اتر آئے ہیں….مناظرے اور مجادلے کی پالیسی نہ بدلی تو ان کی سیاست “کاگوا” ہو جائے گی…..!!!