ڈرٹی پالیٹکس….!!!!..امجد عثمانی
ذہب نہیں یہ سیاست کے نام پر نفرت کا بیوپار ہے……اب کی بار مذہبی رہنما نہیں سیاستدان مذہب کارڈ بیچ رہے ہیں…
مذہب نہیں یہ سیاست کے نام پر نفرت کا بیوپار ہے……اب کی بار مذہبی رہنما نہیں سیاستدان مذہب کارڈ بیچ رہے ہیں….اور یہ پالٹیکس نہیں “ڈرٹی پالیٹکس” ہے….. وزیر داخلہ اور دفاع نے فرمایا کہ “عمران فائرنگ کیس” مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا کیس ہے…..
نہیں حضور والا یہ صرف اور صرف “ڈرٹی پالیٹکس “کا کیس ہے……یہ سیاست کے نام پر نفرت انگیز مہم کے “بطن” سے جنم لینے والی جنونیت اور انتہا پسندی کی”مکروہ جھلک” ہے…..یہ ایک ٹریلر ہے خدا نہ کرے فلم چلے…….!!!
وزیر آباد میں عمران خان پر نفرت کی گولی چلی ہے….نفرت کی یہ وہی گولی ہے جو نیک نام احسن اقبال کے جسم میں پیوست ہوئی…سیاست میں شدت پسندی کا برا ہو کہ وزیر آباد کیس کا “غیر مذہبی جنونی” بھی اپنی گفتگو السلام علیکم سےشروع کر رہا اور کسی بات پر الحمد للہ بھی کہہ رہا ہے…….المیہ یہ ہے کہ مذہب بعد سیاست کے نام پر نفرت کے بیوپار نے نسلیں بگاڑ دی ہیں……خان صاحب نے نفرت کی گولی کھانے کے بعد اپنی نفرت انگیز پریس کانفرنس میں سلمان تاثیر کا حوالے دیکر توہین مذہب میں الجھانے کی دہائی دی……اگر یہ بات درست ہے تو یہ بھی ” ڈرٹی پالیٹکس” ہے لیکن سوال یہ ہے کہ
سنئیر صحافی وقار ستی کیخلاف توہین مذہب کا مقدمہ “ڈرٹی پالیٹکس “نہیں تھی کہ جن دس بارہ نکات پر ان کیخلاف ایف آئی آر ہوئی وہ سب خان صاحب کے “ارشادات جاہلیہ تھے”……غیر محتاط گفتگو کے وہی “حوالے” جو خان صاحب کی شخصیت کی پہچان بن چکے ہیں……مغالطہ یہ ہے کہ وہ اپنی “شعلہ باری” کو “گل افشانی “سمجھتے ہیں…. خود پسند عمران خان کو ایک ہی وقت میں کئی مغالطے درپیش ہیں….مغالطے شدت اختیار کر جائیں تو عارضے بن جاتے ہیں اور یہ عارضے “عارضی” نہیں ہوتے…… خان صاحب کو سب سے بڑا مغالطہ یہ ہے ک ان کا فرمایا ہوا “حرف آخر” ہے….اسی مغالطے میں وہ دنیا جہان کے ہر موضوع پر لب کشائی کرتے ہیں……کہیں سیاق و سباق بدل جاتا تو کہیں معنی و مفہوم……کہیں تاریخ بدل جاتی تو کہیں جغرافیہ لیکن وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے… وہ شیشے کے گھر بیٹھ کر پتھر مارتے اور سمجھتے ہیں کہ” کانچ” کو آنچ نہیں آئےگی……
لہجہ مریم نواز شریف….مریم اورنگزیب،خواجہ آصف اور رانا ثنا اللہ کا بھی انتہائی غیر مناسب ہے …..کبھی کبھار مولانا،بلاول،شہباز،زرداری اور نواز شریف بھی “تلخ” ہو جاتے ہیں…..لیکن خان صاحب تو “انگارے” برساتے ہیں ……کہہ لیں “ہمارے سیاستدان “بھولیں تو پھول نہیں “کانٹے” پھولوں کی طرح جھڑتے ہیں…..!!!
خان صاحب نے جہاں مذہبی رہنمائوں سے بھی زیادہ مذہب کارڈ استعمال کیا وہاں اپنے ہم عصر سیاستدانوں کی کردار کشی کی بھی حد کر دی…..ریاست مدینہ کے اتنے حوالے مولانا طارق جمیل نے نہیں دیے ہونگے جتنے خان صاحب نے دیے….اسی طرح
ایاک نعبد و ایاک پڑھ کر اتنی دشنام طرازی بھی شاید کسی قومی رہنما نے کی ہو…..کبھی یہ “عامیانہ لہجہ” شیخ رشید کا ہوا کرتا تھا……میثاق جمیوریت کے بعد سیاست میں قدرے برداشت بڑھی لیکن خان صاحب اپنے کارکنوں کو پھر نوے کی دہائی میں لے گئے….بانوے کا کرکٹ ورلڈ کپ بیان کرتے کرتے بد اخلاقی کا ورلڈ کپ سجا دیا……لاہور پریس کلب میں جمی ایک محفل کے دوران کسی دوست نے ازراہ مذاق کہا کہ خان صاحب جس طرح کی گفتگو کرتے ہیں…ان کی تقاریر کے کچھ “اقتباسات” ترجمہ کرکے آکسفورڈ یونیورسٹی کو بھجوائے جائیں اور پوچھا جائے کہ آپ کے ہاں اس طرح کی” پولیٹیکل سائنس”پڑھائی جاتی ہے تو وہ کہیں اپنی ڈگری ہی واپس نہ لے لیں……
خان صاحب کو ایک “سنگین مغالطہ” اور ہوا…..وہی مغالطہ جو ہمارے یاں لوگوں کو ایک خاص وقت میں ہو جایا کرتا ہے…..کبھی احسان کا بدلہ احسان ہوا کرتا تھا….پھر احسان کے بدلے گریبان کا زمانہ آگیا……خان صاحب بھی آخر اسی اسٹیبلشمنٹ کے درپے ہو گئے جو انہیں بڑے لاڈ سے لائی اور وہ عرف عام میں “لاڈلے” کہلائے….اب وہ فرماتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہے نہ تھی…….سنا ہے یہ بات تو شکرگڑھ سے “ہمارے حضرت صاحب “بھی نامہ نگاروں کے روبرو کہتے ہیں کہ میں کسی کو کیا سمجھتا ہوں……وہی “خدائی لہجہ” جو پرویز مشرف ایسے” مرد اہن “کو بستر مرگ پر نشان عبرت بنا دیتا ہے….
خان صاحب کا مغالطہ دیکھیں کہ فوج کو سر عام برا بھلا بھی کہتے اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب میں فوج پر تنقید کرتا ہوں تو یہ تعمیری تنقید ہوتی ہے….کیا دفاعی ادارے اور اس کے ذمہ داروں کو نیوٹرل …..ہینڈلر… میر جعفر…میر صادق ….غدار سازشی….جانور….چوکیدار…
ڈرٹی ہیری کہنا تنقید ہے یا تنقیص؟؟؟بقول خان صاحب یہ “تعمیر” ہے تو “تخریب”کسے کہتے ہین….؟؟؟وہی “تعمیری تنقید” جس پر بھارت میں جشن بپا ہے…..مکرر عرض ہے کہ عمران خان کا بیانیہ “متضاد بیانیہ” ہے……”اسلامی ٹچ” کے ساتھ یہ دنیا بھر کے بیانیوں کا “ملغوبہ” ہے……روزنامہ صحافت کے زمانے کی بات ہے کہ میں نے نامور اسلامی سکالر بزرگوارم رانا شفیق پسروری سے ایڈیٹر کی ایک “منظور نظر “خاتون کالم نگار کے بارے پوچھا یہ کیا لکھتی ہیں….انہوں نے کہا کچھ بھی نہیں…. کسی ایک نشست میں جو پڑھتی ہیں اسے کالم سمجھتی ہیں اور ہم چھاپ دیتے ہیں……انوکھے لاڈلے تو ہر کہیں ہوتے اور ایک طرح کے ہوتے ہیں….کھیلن کو چاند ہی مانگتے ہیں….
مکرر عرض ہے کہ میر کارواں کے جو اوصاف علامہ اقبال نے گنوائے وہی شخصیت کو نکھارتے ییں…..نگہ بلند…..سخن دل نواز…….جاں پرسوز……
وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا اور سوچ سوچ کر بولتا ہے کہ کتنے ہی لوگ اس کے نقش قدم پر ہوتے ہیں….
قومی لیڈر کی گفتگو انتہائی” سکرپٹڈ” ہوتی ہے………گفتار میں تکرار ایک نقص ہے…..طوالت بھی ہرگز خوبی نہیں …..قائد اعظم بہت کم بولے مگر ان کا فرمایا مستند ٹھہرا اور وہ “قومی بیانیہ” بن گیا……
داستان گوئی اور حقائق میں بڑا فرق ہے……گفتگو کے بھی کچھ قرینے ہیں اور زبان کے لیے بھی ایک…سرخ لکیر….طے ہے….لہجہ توازن کھودے تو” بیانیے” الجھ جاتے ہیں……اختلاف رائے دشمنی نہیں ہوتی….بزرگ کہتے ہیں اختلاف کے لیے آداب اختلاف لازم ہیں…..عمران خان زبان کے جال میں پھنس گئے ہیں…..اب تو وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی کو بھی ان کا فوج مخالف بیانیہ رد کرنا پڑا…..خان صاحب نے مناظرے اور مجادلے کی راہ نہ چھوڑی تو ایک ایک کرکے سب انہیں چھوڑ جائیں گے اور وہ سیاست کے کنٹینر پر تنہا رہ جائیں گے…..!!