امجد عثمانیکالمز

پاکستان کا مقدمہ……!!! امجد عثمانی

پاکستان اور عساکر پاکستان کا “شملہ” ہمیشہ اونچا رہے گا…..اس” پیش منظر “کا ایک ایمان افروز “پس منظر” ہے……

پاکستان اور عساکر پاکستان کا “شملہ” ہمیشہ اونچا رہے گا…..اس” پیش منظر “کا ایک ایمان افروز “پس منظر” ہے……ابھی کل کی بات ہے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ابتدائی دو میچوں سے “گھائل” پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلے گی اور سات سمندر پار سبز ہلالی پرچم اتنی شان سے لہرائے گا…..!!!
نوجوان قومی بلے باز فخر زمان نے سیمی فائنل کی حیران کن فتح پر کیا خوب جملہ “ٹویٹ” کیا کہ دیکھا پھر قدرت کا نظام…..!!!قدرت کا نظام واقعی سب سے طاقتور ہے اور اسی نظام کے تحت کائنات کے سب نظام ہائے کار چل رہے ہیں…..جناب مظفر وارثی کی حمد “اسی نظام” کی کیا خوب صورت” تشریح” ہے:

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے،وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے،نظر جو بھی آرہا ہے وہی خدا ہے
کسی کو سوچوں نے کب سراہا ،وہی ہوا جو خدا نے چاہا
جو اختیار بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے،وہی خدا ہے
کسی کو تاج وقار بخشے،کسی کو ذلت کے غار بخشے
جو سب کے ماتھے پہ مہر قدرت لگارہا ہے،وہی خدا ہے

پاکستان پر قدرت ہمیشہ مہربان رہی ہے……. پون صدی ہو گئی پاکستان کے ساتھ کتنے ہی “کھلواڑ” ہوئے لیکن پھر بھی پاکستان پورے قد سے کھڑا ہے اور کھڑا رہے گا…..یہ سب اللہ کریم کا کرم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کرم کا کمال ہے……احمد ندیم قاسمی کے “گلہائے عقیدت” کانوں میں رس گھولتے ہیں:

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
دستگیری میری تنہائی کی تونے ہی تو کی
میں تو مرجاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
لوگ کہتے ہیں سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

چشم فلک گواہ ہے کہ وطن عزیز کو جب کبھی زمانے کی دھوپ نے آن گھیرا تو روضہ پاک پر سجے سبز گنبد نے اسے آغوش میں لے لیا……پاکستان کی کسے فکر ہے…. سب کو اپنی اپنی فکریں کھائے جا رہی ہیں…..مفادات کے باب میں سیاستدانوں کا حال سب سے برا ہے….اپنے آپ کو صادق و امین سمجھ کر باہم دست و گریبان رہتے ہیں….حالانکہ سب کسی نہ کسی صورت “بدعنوان” ہیں….”اجلے دامن “کچھ ہی ہیں…..کچھ جج بھی “نظریہ ضرورت” کے اسیر ہوتے ہیں مگر ساری عدلیہ نہیں …..کچھ جرنیل بھی “مہم جو” ہوتے ہیں لیکن ساری فوج نہیں…..کچھ “مولوی”بھی بدنام ہیں سارے علمائے کرام نہیں….کچھ “ڈبے پیر”بھی نو سرباز ہیں سارے مشائخ نہیں….کچھ میڈیا پرسن بھی “لفافے” ہوتے ہیں سارے صحافی نہیں……..کہہ لیں ادارے نہیں “یہ کچھ بے چارے” ہیں جنہیں کالی بھیڑیں….گندے انڈے کہہ لیں یا جو جی چاہے نام دے لیں……

حکمران طبقے کا المیہ یہ ہے کہ ان کے قول و فعل میں بڑا تضاد ہوتا ہے…..یہ “گرگٹ” کی طرح رنگ بدلتے ہیں ….مسند نشین ہوتے ہیں تو آئین و قانون کیا….خدا بھول جاتے ہیں….اقتدار چھن جائے تو یکا یک “انقلاب پسند “ہو جاتے ہیں….پھر کوئی “ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا “کی دہائی دیتا تو کوئی “ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے”پکارتے سنائی دیتا ہے….اپنا تاج چھن جائے تو پھر “سب تاج اچھالے جائینگے سب تخت گرائے جائینگے”کی گردان شروع کر دیتے ہیں….یہ اتنے مکار ہیں کہ شاید ہی ان میں سے کوئی کبھی فیض اور جالب کی قبر پر گیا ہو…..کئی “بے چارے” تو جانتے ہی نہیں ہونگے کہ ان عظیم شاعروں کے مرقد کہاں ہیں….یہ اپنے مطلب والے جالب کے سارے شعر لہک لہک کر پڑھتے ہیں ….نہیں پڑھتے تو یہ عبرت آمیز شعر نہیں پڑھتے:

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

بھلا وہ یہ شعر کیوں پڑھیں کہ اقتدار کے نشے میں دھت انہیں زعم ہوتا ہے اب کبھی ان کے عروج کو زوال نہیں.. عالمگیر سچائی مگر یہ ہے اقتدار کے سورج نے آخر غروب ہونا ہے…..رہے نام اللہ کا…….!!!

کوئی کتنی بھی سازشیں کرلے پاکستان کو کچھ ہوا نہ ہوگا…..تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے کتنے ہی بدخواہ عبرت کی مثال بن گئے….آئندہ بھی جو پاکستان کی کمر میں چھرا گھونپے گا اس کا نام و نشان مٹ جائے گا….پاکستان لغوی اور حقیقی معنوں میں ارض مقدس ہے…..مدینہ طیبہ سے نسبت والے اس خوش قسمت قطعہ ارضی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص نگاہ ہے…..یہ وہی پاک سرزمین ہے جہاں سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو آئی….رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیوں پہلے اس خطے بارے بشارت دی……اللہ کے مقرب بندوں کا ہمیشہ یہ مسکن رہا…. اس دھرتی کو ہزاروں اولیائے کرام کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے…..قائداعظم محمد علی جناح ،علامہ محمد اقبال، چودھری رحمت علی،علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا اشرف علیٰ تھانوی اور پیر جماعت علی شاہ سمیت اس ’’ سکول آف تھاٹ‘‘ کے سب لوگ اللہ کے منتخب نمائندے تھے………پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ کا سلوگن بھی عام نعرہ نہیں بلکہ ریاست مدینہ کے بعد یہ دوسرا ملک ہے جو اس مقدس کلمہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا….یہ “معجزاتی ریاست” ہے جس کا خواب اقبال نے دیکھا…..
قائد اعظم نے اسے تعبیر بخشی اور چودھری رحمت علی نے اس کی پیشانی پر پاکستان کا نام سجا دیا….. ہزاروں عالی شان ہستیوں نے اپنے متعین کردہ فرائض انجام دیکر اس اسلامی ریاست کی تشکیل میں حصہ ڈالا…..لاکھوں مسلمانوں نے اپنے خون سے اس گلستان کو سینچا……جناب قدرت اللہ شہاب سے فیض یاب ممتاز دانشور ممتاز مفتی نے اپنے منفرد سفر نامہ حج ’’ لبیک‘‘ میں کچھ چشم کشا واقعات لکھے ہیں جن کی روشنی میں یہ بات پورے بھروسے سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ خاص میں ہے اور مدینہ سے اس کا گہرا تعلق ہے…. لبرل دوست جمع خاطر رکھیں کہ یہ “سفرنامہ حج” مولوی نامہ ہرگز نہیں…..ایک روشن خیال دانشور نے “موتی “بکھیرے ہیں……مفتی صاحب لکھتے ہیں:جان محمد بٹ میرے اولین رہبر ہیں….. وہ بات پر بات پر فرمایا کرتے، مفتی جی آپ پاکستان کا غم نہ کھائیں، جنہوں نے یہ ملک بنایا ہے وہ اس کی رکھوالی کر لیں گے….. ایک روز میں نے پوچھا پاکستان کے محفوظ ہونے سے متعلق آپ اتنے وثوق سے کیسے بات کر سکتے ہیں؟ وہ بولے : ہمارے سرکار ان لوگوں میں سے تھے جو قیام پاکستان کیلئے کام کرنے پر مامور تھے…… ہمیں علم ہے کہ پاکستان کے سر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہے……
روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلید بردار کی پاکستان بارے گواہی کا یوں تذکرہ کرتے ہیں: میں ایوان صدر میں تعینا ت تھا کہ ایک شخص مدینہ منورہ سے صدر کے نام پیغام لایا….. یہ پیغام مسجد نبوی شریف کے چابی بردار کی طرف سے تھا….. آپ پنجاب کے رہنے والے تھے…..فوج میں بھرتی ہوئے …. جنگ عظیم میں مشرق وسطیٰ پہنچے….حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا جذبہ جنون بن گیا….ایک روز چپکے سے مدینہ عازم ہوئے…..وہاں پہنچ کر کیفیت طاری ہوئی کہ وہیں کے ہو رہے….خادم بنے، پھر یہ اعزاز حاصل ہوا کہ مسجد نبوی کے چابی بردار بن گئے….. ان کا پیغام تھا: 1947 میں ہم نے خواب دیکھا کہ مسجد نبوی شریف سے ایک پودا پھوٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے بیل کی طرح دور بہت دور تک چلا گیا…. اس کے پر لے سرے پر سبز پتیاں نکل آئیں…..کئی سال بعد پھر وہی خواب آیا کہ اس پودے پر جو سبز پتیاں تھیں وہ خشک ہوگئی ہیں لیکن مسجد نبوی شریف میں اس کی جڑ جوں کی توں ہری ہے….. برسوں بعد اب پھر وہی خواب دیکھا ہے کہ پرلے سرے کی خشک پتیاں پھر سے ہری ہو رہی ہیں…..مبارک ہو…..!!!

مفتی صاحب 1965 کی پاک بھارت جنگ بارے لکھتے ہیں: لاہور کے مشہور و معروف حکیم اور دانشور نیئر واسطی صاحب 65 کی جنگ کے دوران مدینہ منورہ میں مقیم تھے….. وطن واپسی پر انہوں نے ریڈیو پاکستان سے جنگ بارے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا ’’ لاہور کی وہ خاتون جو 18 سال سے مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہیں اور روضہ پاک کی جالی کے پاس بیٹھی رہتی ہیں….اس نے بتایا کہ 6 ستمبر کو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر پریشان دیکھا کی پہلے کبھی نہ دیکھا تھا‘‘
’’ ایک بزرگ جو روزانہ روضہ اطہر پر مجھ سے ملتے تھے…. 6 ستمبر کو کہیں دکھائی نہ دیئے….ایک مرید نے بتایا کہ آپ جہاد کیلئے پاکستان گئے ہیں ‘‘ ایک اور بزرگ نے فرمایا کہ غزوہ بدر کے تمام شہداء پاکستان پہنچ چکے ہیں تاکہ جہاد میں شامل ہوسکیں۔‘‘ ممتاز مفتی لکھتے ہیں: پھر جنگ بارے بھارتی قیدیوں کے بیانات اخبارات کی زینت بنے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ بھارتی سپاہی پاکستان کی اس فوج سے خائف تھے جو تلواروں سے لڑتی تھی اور ان کی شمشیروں سے بجلی کے شعلے نکلتے تھے……

پاکستان خوش نصیب ملک ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلئے فکرمند ہوتے اور پاک فوج خوش قسمت ہے کہ شہدائے بدر اس کے مددگار ہیں….کلمہ طیبہ کے “سنہری حروف “سے مزین پاکستان کا مقدمہ بڑا دلکش ہے…..اکناف عالم میں یوں ہی پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے ہمیشہ گونجتے رہیں گے……..!!!!

نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button