سید عاطف ندیمکالمز

ارشد شریف کی شہادت کا معمہ؟…سید عاطف ندیم

نامور پاکستانی صحافی ارشد شریف افریقی ملک کینیا کے ایک دور افتادہ علاقے کجیاڈو میں حادثاتی طور پر پولیس فائرنگ کی زد میں

نامور پاکستانی صحافی ارشد شریف افریقی ملک کینیا کے ایک دور افتادہ علاقے کجیاڈو میں حادثاتی طور پر پولیس فائرنگ کی زد میں آ کر جان بحق ہوئے، کجیاڈو نیروبی سے تقریبا 80 کلومیٹر جنوب میں تنزانیہ کے سرحدی شہر اروشا کی طرف جانے والی شاہراہ پر واقع ہے … کیجیاڈو نہ تو کوئی بڑا شہر ہے اور نہ ہی سیاحت کا اہم مرکز، یہ قصبہ اس راستے پر واقع ہے جو زیادہ تر پڑوسی ملک تنزانیہ جانے کے لئے راہداری کے طور پر استعمال ہوتا ہے .. میں نے ذاتی طور پر اس میں سڑک پر سفر کیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک اہم راہداری ہے مگر اس پر سفر کرنا قطعاً محفوظ نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق کینیا پولیس نے اس راستے پر سفر کرنے والے کچھ مجرموں کو روکنے کے لئے ایک روڈ بلاک قائم کیا تھا، ایک چیک پوائنٹ پر پولیس نے کار روکنے کی کوشش کی، نہ رکنے پر پولیس نے اس گاڑی پر فائرنگ کردی، جس کی زد میں آ کر کار میں موجود پاکستانی صحافی جان بحق ہوگیا۔
ارشاد شریف نے کینیا کا سفر کیوں کیا؟ وہ نیروبی یا ممباسا جیسے بڑے شہروں کے بجائے کجیاڈو میں کیوں تھا، کیا کر رہا تھا؟ کیا وہ اس سڑک کے ذریعے تنزانیہ جا رہا تھا اور کیوں؟ پولیس چیک پوائنٹ پر اس کی کار کیوں نہیں رکی؟ یہ تمام سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔
پس منظر کو سمجھنے کے لئے یہ تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ سیاسی طور پر عدم استحکام کے شکار کینیا میں امن و امان ہمیشہ ہی ایک مسئلہ رہتا ہے، حالیہ مہینوں میں یہ صورت حال مزید خراب ہوئی ہے، ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں، کینیا کے موجودہ صدر روتو نے گذشتہ روز ہی ایک پولیس یونٹ ایس ایس یو کو سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہلاک کرنے کے الزام میں کالعدم کیا ہے۔ دو بھارتی شہری – ذوالقار احمد خان اور محمد زید سمیڈوئی جو کینیا کے صدر ولیم روتو کی سیایس مہم ڈیجیٹل میڈیا پر چلانے کا کام کر رہے تھے، جولائی 2022 میں اچانک لاپتہ ہوگئے تھے ، ان کے بارے میں گذشتہ روز ہی خود کینین صدر نے انکشاف کیا کہ ان دونوں بھارتی باشندوں کو کینیا کے ڈائریکٹوریٹ آف کریمینل انویسٹیگیشن کے خصوصی خدمات یونٹ نے ہلاک کر دیا ہے ( کینیا کا ڈی سی آئی پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے یا امریکہ کی ایف بی آئی کے مترادف ہے) ، بھارتی شہریوں اور اس جیسی متعدد دوسری ماوارئے عدالت قتل کی وارداتوں کے الزام میں کینیا کے صدر روتو نے اس یونٹ کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایسے حالات میں، ایک پاکستانی صحافی نے متحدہ عرب امارات یا برطانیہ جیسے محفوظ ملک کو چھوڑ کر کینیا جیسے خطرناک ملک کا رخ کیوں کیا؟ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا اس کے ساتھ پاکستان، متحدہ عرب امارات یا برطانیہ سے تعلق رکھنے والا کوئی اور فرد بھی سفر کر رہا تھا یا ارشد شریف تن تنہا ہی کینیا پہنچے تھے۔
شریف مافیا کو ارشد شریف کی شہادت میں ہرگز نہ بھولیں۔ان کی کرپشن کی ڈاکومنٹری کا مواد بھی ارشد شریف کے پاس تھا یہ ٹبر بھی بہت ظالم ھے اور 14 قتل پہلے کر چکا ھے۔ساتھ انکی کرپشن کےگواہ اور تحقیق کرنے والے افسران ڈاکٹر رضوان اور مقصود چپڑاسی اور بہت سے لوگ بھی پراسرار موت مرچکےہیں۔
ہوسکتا ہے کسی نے کینیا کی پولیس کو پیسے دئیے ہوں ۔ کیونکہ ان کے سیکورٹی ادارے بھی سندھ پولیس جیسے ہیں پولیس پیسے لے کر ٹپکا دیتی ہے ۔۔۔یہ لوگ تو قطر سے خط لکھوا لائے تھے کینیا تو ویسے کمزور ہے
تحقیق یہ کرنی ہے کہ کس کے کہنے پر پولیس نے یہ سب کچھ کیا ۔ کون سا ملک یا اس کی ایجنسی اس میں شامل ہے ۔۔۔
تمام پاکستانی اپنے اندرونی بغض کو چھوڑ کر کینیا پولیس کے خلاف کمپین کریں اور عالمی تحقیق کا مطالبہ کریں ۔۔۔
یہ کوئی عام سی بات نہیں ہے اور اپنے وطن پر تہمت لگا کر کچھ حاصل نہیں ہونا ۔ اصل ٹارگٹ پر نشانہ لگائیں ۔۔۔
ارشد شریف کی شہادت پر چند سوالات جنم لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد شریف کو گولی سر کے بالکل اوپر ماری گئی ہے
گاڑی پہ سامنے سے فائرنگ ہوتی تو گولی سینے یا ماتھے پہ لگتی
پھر لاش جائے وقوعہ سے 75 کلو میٹر دور کیسے پہنچ گئی ؟
کینیا پولیس نے 18 گھنٹے کوئی پریس ریلیز کیوں نہ جاری کی ؟
دفتر خارجہ اطلاع کے باوجود کیوں چپ رہا ؟
میڈیا پہ حادثے کاپروپیگینڈا بغیر تحقیقات کے کس نے شروع کروا دیا ؟
حکومتی صحافیوں کی پراسرار خاموشی کی کیا وجوہات ہیں ؟
کینیا کا میڈیا اپنی پولیس کو جھوٹا کیوں کہہ رہا ہے ؟
ہیومن رائٹس واچ کمیشن نے اس کہانی کو کن بنیادوں پر مسترد کر کے تحقیقات کا تقاضا کیا ہے ؟
بول کے سوا باقی میڈیا پہ اس خبرکا بلیک آؤٹ کس نے کروایا ؟
ارشد کو پاکستان سے نکالنے کے بعد دوبئی سے بھی نکلوانے کیلئے امارات حکومت پر کس نے دباؤ ڈالا ؟
ارشد نے اپنے قریبی دوستوں کو بار بار بتایا کہ اس کا پیچھا کیا جا رہا ہے
ہم جانتے ہیں
ارشد کے قاتل کبھی نہیں پکڑے جائیں گے، یہ قتل مگر ہر گز حادثہ نہیں ہے !!
کینیا کی پولیس سرے سے بکواس کر رہی ہے ! یا ان سے کروائی جا رہی ہے بے وقوف نہیں ہے کوئی !!
روکنے کے لئے کوئی بھی پولیس ڈائریکٹ فائر نہیں کھولتی اور جب ہر صورت گاڑی روکنی ہو تب گاڑی کا ٹائر برسٹ کیا جاتا ہے سیدھی سر میں گولی مارنا پولیس کا کام نہیں ہے یہ ایک مکمل پہلے سے تیار شدہ بکواس ہے!
مجھے کوئی شبہ نہیں کہ یہ سنائپر بلٹ ہے!
ارشد کی نیٹ فلیکس پر جو ڈاکومنٹری آ رہی تھی BehindeClosedDoor وہی وجہ ہو سکتی ہے کیوں کہ ارشد انویسٹیگیٹیو جرنلسٹ تھا اور بڑے بڑے مافیا اور انکے سہولتکاروں کو سامنے لانے والا تھا !!…

کس کس کو خوف تھا اسکی ڈاکیومینٹری سے ؟؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button