قرضوں کی "پسوڑی” اور ”تکنیکی ڈیفالٹ “…. طیبہ بخاری
20 سے 30ہزار ماہانہ کمانے والا یوٹیلٹی بلز ادا کرے، بچوں کے سکولوں ، کالجوں کی فیسیں بھرے یا گھر سے فاقے ختم کرے
کس پر یقین کریں ، کس پر نہ کریں ۔۔۔ایک بار پھر ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں ہیں ۔۔۔۔یہ بحث حکمران جماعت کے اندر سے شروع ہوئی اور اب پورے ملک میں زیر بحث ہے۔۔۔۔عوام کس کو نجات دہندہ سمجھیں ۔۔۔۔کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں ۔ ۔۔۔
ذرا غور کریں کہ ہو کیا رہا ہے ۔۔۔۔
آٹے کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں ۔۔۔پیاز ، ٹماٹر ڈبل سنچری کر چکے ۔۔۔۔انڈے گوشت غریب کی پہنچ سے دور ہیں، دیکھ سکتے ہیں خرید نہیں سکتے۔۔۔
20 سے 30ہزار ماہانہ کمانے والا یوٹیلٹی بلز ادا کرے، بچوں کے سکولوں ، کالجوں کی فیسیں بھرے یا گھر سے فاقے ختم کرے ۔۔۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔اور قرضوں کی دلدل ہے کہ مزید گہری اور ہولناک ہوتی جا رہی ہے ۔۔۔نا چاہتے ہوئے بھی کروڑوں پاکستانی اس میں دھنستے جا رہے ہیں، موجودہ ہی نہیں آنیوالی نسلیں بھی دھنس چکی ہیں ۔۔۔
تازہ ترین صورتحال کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ رہے خود سیاسی قیادت کہہ رہی ہے کہ
حکومت شوگر ملز مالکان کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ۔۔۔
ملک ڈیفالٹ کر چکا مگر وزیر خزانہ اور حکومت اس بات کو چھپا رہے ہیں۔ ۔۔۔
معیشت تباہ ہو چکی ، ٹرائیکانے ملک کو بستر مرگ پر پہنچا دیا ،وزیر خانہ غلط بیانی کر رہے ہیں ۔۔۔۔
خزانے میں صرف امانتیں موجود ہیں۔۔۔۔
ایل سی بند ہونے کے باعث ملک میں غذائی سامان نہیں آرہا ،اشیائے خور و نوش کی قلت ہے۔۔۔۔۔
کسی نہ کسی صورت میں سب جماعتیں حکومتی نظام میں شامل ہیں لیکن صرف”اپوزیشن “ دماغ میں بھری پڑی ہے ۔۔۔۔
اتنا عرصہ اور اتنی زیادہ غلامی کی ہے کہ ابھی تک اپنے حکمران ہونے کا” یقین“ ہی نہیں آ رہا ۔۔۔۔
یہ دماغوں میں گھسی غلامی ہی تو ہے کہ مرکز اور صوبوں میں حکومتوں میں ہونے کے باوجودکسی کاآپس میں کوئی رابطہ نہیں ، سب مسائل کی معاملہ ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں ۔۔۔
9 کروڑ سے زائدلوگ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔۔۔۔پنشن اور تنخواہیں دینے کے بھی پیسے نہیں
پولیس جرائم پر قابو پانے کی بجائے پروٹوکول دینے میںمصروف ہے۔۔۔۔
کس سے پوچھا جائے کہ پاکستان میں کاروباری اعتماد کا انڈیکس منفی زون میں کیوں چلا گیا ۔اوورسیز چیمبرز کے سروے کے مطابق پاکستان میں اوسط کاروباری انڈیکس منفی 4 ،سروسز سیکٹر میں کاروباری اعتماد منفی 8 فیصد جبکہ ریٹیل سیکٹر میں اعتماد منفی 14 فیصد ہے۔ افراطِ زر اور مہنگے فیول کے سبب اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہیں۔
کاش ایسی خبریں پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ ختم ہو جائیں ۔۔۔اب ایک اور قرض لینے کے حوالے سے خبریں سامنے آ رہی ہیں ۔۔۔
پھرکہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے مزید قرض کی درخواست کر دی ہے ۔۔۔
ایسی خبروں کو کوئی بھی پاکستانی اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتا لیکن”مجبوری “ ہے۔۔۔قوم کی یا حکمرانوں کی ۔۔۔؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا
کاش کوئی حاکم اس ”مجبوری“ کو آگ لگا سکے اور قرض کی ”پسوڑی ‘ختم کر سکے ۔
اصل میں فوری ”پسوڑی “یہ ہے کہ پاکستان کو رواں مالی سال کے اختتام تک 16 ارب ڈالرز کا قرض واپس کرنا ہے اس حوالے سے ملک کی زرِ مبادلہ کی صورتِ حال بہتر بنانے کےلئے سر توڑکوشش جاری ہے۔پاکستان نے سعودی عرب سے مزید قرض کی صورت میں 4.2 ارب ڈالرز کی درخواست کی ہے، یہ درخواست توانائی کی خریداری اور بجٹ سپورٹ کےلئے کی گئی ہے۔ سعودی عرب سے 3 ارب ڈالرز بجٹ سپورٹ کے طور پر قرض کی درخواست کی گئی ہے،سعودی عرب سے دیگر پیمنٹ پر مزید 1.2 ارب ڈالرز مالیت کا تیل اور یوریا کھاد بھی لی جائے گی۔ سپورٹ کی یہ درخواست سعودی عرب کے سفیر کے ذریعے کی گئی ۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ہی سعودی عرب نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس رکھے گئے 3 ارب ڈالرز کے ڈیپازٹ کا دورانیہ بڑھا دیا تھا، ڈیپازٹس کا دورانیہ کنگ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کے احکامات پر بڑھایا گیا۔ سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ نے نومبر 2021ءمیں 3 ارب ڈالرز جمع کرائے تھے۔سٹیٹ بینک نے اس بڑی سہولت کے ملنے پر اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں تسلیم کیا گیا تھا کہ سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کے سٹیٹ بینک کے پاس 3 ارب ڈالرز ڈیپازٹس ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ ان ڈیپازٹس سے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے۔ ان ڈیپازٹس کی واپسی کے دورانیے میں اضافہ کووڈ 19 کی وباءکے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے مقابلہ کرنے کی طاقت دے گا۔ یہ سہولت بیرونی ادائیگیوں کو توازن دینے اور پائیدار معاشی ترقی کا موقع دینے میں مدد دے گی۔۔۔۔۔اب مدد ملی یا نہیں ۔۔۔اس کا جواب ابھی تک سامنے نہیں آیا ، کسی نے نہیں بتایا ۔
سعودی عرب سے ملنے والے”ڈیپازٹس “ کی کہانی مختصراً بیان کرتے چلیں تو صرف ایک سال قبل کی بات ہے کہ نومبر کے آخری عشرے میں یہ خبر منظر عام پرآئی تھی کہ سعودی عرب 4 فیصد سالانہ منافع کے عوض ایک سال کیلئے 3 ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں رکھے گا جبکہ 3 اعشاریہ 8 فیصد مارجن پر ماہانہ 10 کروڑ ڈالر کا ادھار فیول بھی دے گا۔ پاکستان کو تیل بھی واپس کرنا ہوگا۔ وفاقی کابینہ نے سعودی عرب سے3 ارب ڈالر کے ذخائر سٹیٹ بینک میں رکھنے اور ادھار پر تیل خریداری کے معاہدوں کی منظوری دی تھی۔ معاہدوں کی منظوری سرکولیشن سمری کے ذریعے الگ الگ سمریوں کے تحت دی گئی تھی۔ دونوں معاہدوں کی مدت 1 سال تھی۔پاکستان ادھار تیل خریداری پر سالانہ 3 اعشاریہ 80 فیصد مارجن جبکہ 3 ارب ڈالر کے ذخائر پر 4 فیصد منافع سعودی عرب کو دے گا۔
یہ تھی برادر ملک سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر لینے کی کہانی کی تفصیل۔۔۔۔اس میں مزید کیا کچھ ہے یا تھا اس پر پھر کبھی بات کر لیں گے۔
رواں ماہ کے آغاز میں ہی سٹیٹ بینک آف پاکستان کا یہ” اعتراف “میڈیامیں شائع ہو چکا تھا کہ ملکی زرمبادلہ ذخائر 25 نومبر کو ختم ہوئے ہفتے میں 26 کروڑ 68 لاکھ ڈالرز کم ہوئے۔ ملکی زرمبادلہ ذخائر 25 نومبر تک 13 ارب 37 کروڑ ڈالر زرہے۔سٹیٹ بینک کے ذخائر 32 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کم ہو کر 7 ارب 49 کروڑ ڈالرجبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 6 کروڑ ڈالرز بڑھ کر 5.87 ارب ڈالر ہو گئے ۔
گذشتہ ماہ بھی سٹیٹ بینک کا ایک ”اعتراف “ سامنے آیا تھا کہ رواں مالی سال قرضوں، واجبات کا حجم 2 ہزار 768 ارب روپے بڑھ گیا، ایس بی پی نے بیرونی قرض ستمبر 2022 ءکے جو اعداد و شمار جاری کیے ان کے مطابق پاکستان کے قرضوں اور واجبات کا حجم ستمبر 2022 62 ہزار ارب روپے سے زائد ہے، ملکی قرضوں اور واجبات کا حجم جون 2022 ءتک 59 ہزار ارب روپے تھا۔ رواں مالی سال قرضوں اور واجبات کا حجم 2 ہزار 768 ارب روپے بڑھا ، حکومت نے رواں مالی سال 1937 ارب روپے قرض لیا۔پاکستان کے مجموعی قرض میں حکومت کے ذمہ 51 ہزار ارب روپے اور مقامی قرض 31 ہزار ارب روپے ہے، جبکہ بیرونی قرض 18 ہزار ارب روپے ہے۔نجی شعبے کا قرض 3596 ارب روپے ہے، آئی ایم ایف کا قرض 1731 ارب روپے ہے۔ ملک کے بیرونی واجبات کا حجم 2440 ارب روپے ہے، حکومتی اداروں کا قرض 1470 ارب روپے ہے۔اجناس کی فنانسنگ کےلئے 1126 ارب روپے کا قرض ہے، بیرونی سرمایہ کاری کی انٹرکمپنی بیرونی قرضوں کا حجم 998 ارب روپے ہے۔
یہ تو تھی قرضوں کی مختصر تفصیل ۔۔۔۔اب تک کیلئے بس اتنی ہی تفصیل کافی ہے کہ دوبارہ دست سوال پھیلا دیا گیا ہے۔۔۔دوبارہ خالی کشکول آگے رکھ دیا گیا ہے ۔۔۔ایک اور قرض مانگ لیا گیا ہے ۔۔۔ قوم پریشان ہے اور اپنے منتخب نمائندوں سے پوچھ رہی ہے کہ کب ختم ہو گی یہ ”مجبوری “۔۔۔ قرض کی”پسوڑی “؟
سیاسی قیادت معاشی حالات سے پریشان ہے اور قرضوں سے تنگ بھی لیکن”تسلیم “ کرنے کو تیار نہیں، خود قربانی دینے کو تیار نہیں ۔قوم کواس گرداب سے باہر نکلنے کا ”راستہ “ بتانے یا ڈھونڈنے کو تیار نہیں۔۔۔ اشرافیہ اپنی مراعات چھوڑنے یا کم کرنے کو تیار نہیں جبکہ قوم قربانیاں دے دے کر تھک چکی ، نڈھال ہو چکی اب تو فاقوں کا شکار ہے۔۔۔۔خودکشیاں کر رہی ہے
حکومت دعویٰ کر رہی تھی کہ ڈار کے آنے سے ڈالر ”ڈر “ جائیگا ، جلد 200تک آجائیگا لیکن ڈالر آج بھی بے لگام ہے اسے کسی کا ڈر نہیں ۔ ۔ دوسری جانب یہ کہہ کر” ڈرایا“ جا رہا ہے کہ مہنگائی قابو میں نہیں آئے گی، موجودہ حکومت اندر سے بہت پریشان ہے ،ان کے پاس جان چھڑانے کا کوئی آپشن نہیں ، یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح مہنگائی میں کچھ کمی آئے تو الیکشن کی طرف جائیں،اگر مہنگائی کنٹرول نہ ہوئی تو پھر یہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے بھاگنے کی کوشش کرینگے۔ حکمران کسی اور کو ٹوپی پہنا کر خود کھسکنا چاہتے ہیں ، یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی معجزہ ہو اور مہنگائی کم ہو جائے مگر اس مقصد کیلئے معجزے کی نہیں اقدامات کی ضرورت ہے۔ مہنگائی کی شرح 30 فیصد تک چلی گئی ہے ، دوست ممالک بھی دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت ضمنی انتخاب ہار رہی ہے۔ تکنیکی طور پر ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں، ایل سیز نہیں کھل رہیں ، گورنر سٹیٹ بینک نے درست کہا کہ قرضوں میں ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے مگر امید ہے کہ دوست ممالک مزید قرض دینگے۔ ۔۔۔۔۔
ماہرین اور مبصرین سب کو آپ سن رہے ہونگے ، سمجھ رہے ہونگے ، پڑھ رہے ہونگے ۔۔۔سب اپنی اپنی ہانک رہے ہیں ۔۔۔
قرضوں کی ادائیگی کیلئے پیسے نہیں ،لیکن وزیروں کی فوج ظفر موج اور بیرون ملک دوروں کیلئے پیسے ہیں
عام انتخابات کیلئے پیسے نہیں ، لیکن اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑیں گئیں تو ضمنی انتخابات کیلئے حکومت کے پاس پیسے ہیں ۔۔۔
یہ سب کیا ہے ۔۔۔کیوں ہے ۔۔۔؟
کیا اس کو سیاست کہتے ہیں ۔۔۔؟
نہیں یہ سیاست نہیں ،دھندہ ہے ۔۔۔پر گندہ ہے