انعام الحسن کاشمیریکالمز

قائداعظم کے معتمدرئیس الاحرار چوہدری غلام عباسؒکی قومی و ملی خدمات….انعام الحسن کاشمیری

یہ چوہدری غلام عباس ہی تھے جن کے استقبال کے لیے قائداعظم ؒ خود اپنے دفتر سے باہر تشریف لائے

قائداعظم کے معتمدرئیس الاحرار چوہدری غلام عباس ؒ تحریک حریت کشمیر کے ممتاز قائد تھے۔ ان کا شمار قائداعظم کے جانثار ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ قائداعظم ان پر بے حداعتماد کرتے تھے۔ یہ چوہدری غلام عباس ہی تھے جن کے استقبال کے لیے قائداعظم ؒ خود اپنے دفتر سے باہر تشریف لائے۔ قائد نے انھیں کشمیر میں اپنا نمائندہ بنارکھا تھا اور ان کی جماعت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کو کشمیر میں مسلم لیگ قرار دے رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ برصغیر کے چپہ چپہ میں موجود تھی تو کشمیر میں اس کی شاخ مسلم کانفرنس کی صورت میں قائم تھی۔
چوہدری غلام عباس4فروری1904ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔آپ نے پرنس ویلز کالج جموں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ لاہور لاء کالج سے آپ نے وکالت کی تعلیم پائی اور جموں میں پیشہ ورانہ فرائض کی ادائی میں مصروف عمل ہوگئے۔ آپ نے جموں میں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی تاکہ مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے ڈوگرہ حکومت کے سامنے مطالبات پیش کیے جائیں۔ اس جماعت کے پلیٹ فارم سے آپ نے متعدد بار ڈوگرہ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جس کے باعث یہ جماعت جموں بھر میں معروف ہوگئی۔
چوہدری غلام عباسؒ کی جرأت رندانہ اور روایت شکن اقدام کا قصہ اُس وقت پیش آیا جب 13جولائی 1931ء کو ڈوگرہ سپاہیوں نے سرینگر میں 22مسلمانوں کو شہید کردیا۔ اس کے بعد احتجاجی تحریک کے دوران چوہدری صاحب گرفتار ہوگئے۔ رہائی کے بعدان ہی کی قیادت میں ایک وفد نے مطالبات پیش کرنے کیلئے اگست میں مہاراجہ ہری سنگھ سے ملاقات کی۔ یہاں اس وفد نے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی اور بوقتِ ملاقات شاہی آداب کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جس سے مہاراجہ کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں۔بے باکی، جرأت مندی اور بہادری کے ساتھ مسلمانانِ کشمیر کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے اور ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف تحریک چلانے پر آپ کو عین نوجوانی کے عالم میں ہی جبکہ ابھی آپ محض 28برس کے تھے کہ دسمبر1932ء کو خانقاہ معلی سرینگر میں منعقدہ ایک عظیم الشان جلسہ میں اسلامیانِ کشمیر کی طرف سے ”رئیس الاحرار“ کا خطاب عطا کیا گیا۔ اسی طرح آپ ابھی 31برس کے تھے کہ قوم کی طرف سے آپ کو دوسرا خطاب ”قائد ملت“ کا عطا کیا گیا۔ 1935ء میں مسلم کانفرنس کا چوتھاسالانہ اجلاس 25تا27اکتوبر کوپتھر مسجد، سرینگر میں منعقد ہواجس میں چوہدری غلام عباس کو نہ صرف جماعت کا صدر منتخب کیا گیا بلکہ انہیں قائد ملت کا خطاب بھی عطا کیا گیا۔یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ جو نوجوانی کے عالم میں بہت کم لوگوں کو عطا ہوتا ہے۔ اس اجلاس میں انہوں نے پہلی بار ذمہ دارانہ نظام حکومت، ایک آزاد و خودمختار اسمبلی اور مسلمانوں کے لئے آبادی کے تناسب سے نمائندگی کا مطالبہ کیا۔
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا ایک سالانہ اجلاس 17,18,19اپریل1942ء کو منعقد ہوا جس میں چودھری غلام عباس نے واشگاف الفاظ میں اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مہاراجہ ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم کو یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ کشمیر کے 35لاکھ مسلمان ریاست کو صرف اور صرف پاکستان کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور یہ کہ وہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن قبول نہیں کرینگے۔
1936ء میں قائداعظم محمد علی جناح سرینگر تشریف لائے جہاں قائدملت چوہدری غلام عباس نے ایک استقبالیہ میں ان کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا۔ 1938ء میں آپ کو پنڈٹ شیو نارائن فوتیدار کی مسلم آزار تقریر، پونچھ میں جنگلات کی حد بندی کی تحریک اور پونچھ ہی میں توہین قرآن پاک کے واقعہ کے سلسلہ میں حکومت کے رویہ کی زبردست مخالفت کرنے پر گرفتار کرلیا گیا۔ آپ دو ماہ تک اسیر رہے۔
1944ء میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی جانب سے قائداعظم کو دورہ کشمیر کی دعوت د ی گئی۔ 8مئی کو قائداعظم براستہ سیالکوٹ جموں پہنچے جہاں ان کا نہایت شاہانہ استقبال کیا گیا۔ اس حوالے سے قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں ”قائداعظم اور قائد ملت چوہدری غلام عباس ایک کھلی گاڑی میں بیٹھے تھے۔ قائداعظم ؒ عوام کے جوش و خروش، جذبہ ئ محبت اور نظم وضبط سے بہت متاثر ہورہے تھے اور بارہا چوہدری صاحب کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر ان کی طرف تحسین و آفریں کے لہجے میں اپنے بے پناہ اعتماد اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے“
قائداعظم نے مسلم کانفرنس کے زیراہتمام ایک لاکھ سے زائد افراد کے مجمع سے خطاب فرمایا۔ اس موقع پر اے آر ساغر نے کہا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے محمد علی جناح کو قائداعظم کا خطاب دے رکھا ہے تو ہم مسلمانانِ کشمیر نے چوہدری غلام عباس کو رئیس الاحرار اور قائد ملت کا خطاب دیا ہے۔ایک لاکھ سے زائد حاضرین نے اس تجویز کی بھرپور تائید کی اور اس کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے۔ یہ سن کر قائداعظم مسکرانے لگے۔
اس دورہ کے دوران قائداعظم نے بھرپور کوشش کی کہ نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں لیکن شیخ عبداللہ نیشنل کانفرنس کو مسلم کانفرنس میں ضم کرنے سے مسلسل انکاری رہے۔ قائداعظم نے انھیں یہاں تک کہا کہ میں ایک باپ کی حیثیت سے آپ کو نصیحت کرتا ہوں، اگریہ نہ مانی تو ایک وقت آئے گا کہ خوب پچھتاؤ گے۔ چنانچہ 1953ء میں شیخ عبداللہ نے اپنے ایک انٹرویو میں اس امر کا برملا اعتراف کیا کہ قائد اعظم نے مجھے جو نصیحت کی وہ بالکل صحیح تھی اور میں ہی غلط تھا۔ اسے نہ ماننے کی صورت میں آج مجھے پچھتاوا ہورہاہے۔
چوہدری غلام عباس کی قیادت میں آل جموں وکشمیر اور مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگرہ حکمرانوں سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی تحریک نہایت جوش وخروش کے ساتھ چلائی۔24اکتوبر 1946ء کو مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلا س کے بعد آپ کو گرفتار کرلیا گیا اور 28فروری1948ء تک جیل میں ڈوگرہ حکومت کے مظالم برداشت کرتے رہے۔ اجلاس سے قبل آپ مشورہ کے لئے شملہ میں قائداعظم سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو انہوں نے نصیحت کی کہ تحریک ضرور چلائی جائے لیکن جیل بھرو والی نہیں۔ جب پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو قائدملت جیل میں ہی قید تھے تاہم آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے ساتھیوں نے قوم کی رہنمائی کا فریضہ بخوبی سرانجام دیا۔ رہائی کے بعد جب آپ پاکستان پہنچے تو یہاں آپ کا نہایت ولولہ انگیز استقبال کیا گیا۔ ہنگاموں کے دوران آپ کی ایک بیٹی اغوا ہوگئی تھی لیکن آپ نے نہایت بہادری کے ساتھ یہ صدمہ جانکاہ برداشت کیا اور صرف اتنا کہا کہ میری ایک بیٹی آزادی کی راہ میں قربان ہوئی لیکن قوم کی ہزاروں بیٹیاں اغوا ہوئی ہیں، وہ سب بھی میری بیٹیاں ہیں۔
رہائی کے بعد آپ قائداعظم سے ملاقات کے لئے کراچی پہنچے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ آپ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے ہی پہنچ گئے تھے تو قائداعظم نے اپنے ملٹری سیکرٹری کے ذریعہ حکم دیا کہ آپ مقررہ وقت پر تشریف لائے۔ قائد ملت نے قائداعظم کے حکم کو سرپیشانی پر رکھا اور کوٹھی سے باہر تشریف لے گئے جہاں قدرت اللہ شہات گاڑی کو ادھر ادھر گھما کر مقررہ وقت پر واپس پہنچے۔قائداعظم باہر تشریف لائے اور رئیس الاحرار کا استقبال کیا۔ اس بابت قائداعظم نے فرمایا کہ میں نے مقررہ وقت پر آنے کا اس لئے کہا تھا کہ میں آپ کا استقبال کرسکوں۔ اس ملاقات میں قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ”غلام عباس! میں جذباتی نہیں ہوں لیکن آج تمھیں دیکھ کر مجھ سے زیادہ کوئی خوش بھی نہیں۔“قائد نے شاید اس سے بڑھ کر کسی کے ساتھ محبت بھرا ایسا سلوک نہ کیا ہوگا جو اسلامیانِ کشمیر کے ہر دلعزیز و محبوب قائد چوہدری غلام عباس ؒکے ساتھ کیا۔
قوم کی جانب سے رئیس الاحرار کو قائد ملت کا خطاب بھی ملا تھا جسے آ پ نے بعد ازاں قائد ملت خان لیاقت علی خان شہید کے احترام میں واپس کردیا اور کبھی استعمال نہیں کیا۔ آپ آزاد حکومت کے نگران اعلیٰ بھی رہے۔
قیام پاکستان اور آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کی تاسیس کے بعد بھی آپ کشمیر کے باقی ماندہ حصے کی آزادی اور پورے کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ 18دسمبر1967ء کو آپ نے کچھ عرصہ علالت میں رہنے کے بعد اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ آپ کا مزارفیض آباد، راولپنڈی میں انجمن فیض الالسلام کی جانب سے عطا کردہ وسیع زمین کے ایک ٹکڑے پر موجود ہے جہاں ہر سال آپ کے یوم وفات پر آپ کی شاندار خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے سرکاری سطح پرنہایت تزک واحتشام سے برسی کی تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ریاست جموں وکشمیر اور بیرون کشمیر بھی آپ کا یوم وفات نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ منایاجاتاہے۔
ترانہ پاکستان کے خالق حفیظ جالندھریؒنے 1928ء میں انجمن اسلامیہ مسلم سکول جموں کی ایک تقریب میں چوہدری غلام عباس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک نظم پڑھی تھی جس کے چند اشعار مندرجہ ذیل ہیں۔
تِری یہ زندگی عباس کتنی پُر سعادت ہے
جہاد فی سبیل اللہ ترے زیرِ قیادت ہے
تِری عمرِ رواں کا ہر نفس وقفِ عبادت ہے
یہ آزادی کی خاطر قید ہر قائد کی عادت ہے
رفیع الشان جموں شہر میں پیدا کیا تجھ کو
بہارِ جنت ِ کشمیر پر شیدا کیا تجھ کو

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button