کالمزمدثر درانی

محکمہ پولیس میں اصلاحات کی ضرورت…مدثر درانی

ایسے میں وہ بطور خاص خاتون پولیس اہل کار اور خواتین کے پولیس سٹیشن پر اپنی شکایت بے جھجک سنا سکتی ہیں

پولیس میں خواتین یا نفاذ قانون کے لیے خواتین کی ضرورت دنیا بھر میں محسوس کی گئی۔ ہر پیشے میں مردوں کے ساتھ خواتین کی شانہ بشانہ موجودگی ضروری ہے، دوسری وجہ کئی خواتین خود کسی جرم کا شکار ہو سکتی ہیں، گھریلو تشدد بھی ہو سکتا ہے اور اس سے آگے معاملہ جنسی ہراسانی، جنسی بد اخلاقی اور آبرو ریزی کی حد تک سنگین ہو سکتا ہے، اس میں وہ شدید جسمانی تشدد کا بھی شکار ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں وہ بطور خاص خاتون پولیس اہل کار اور خواتین کے پولیس سٹیشن پر اپنی شکایت بے جھجک سنا سکتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ان کا جسمانی معائنہ اور طبی معائنہ بھی خاتون افسروں کی موجودگی میں کیا جا سکتا ہے۔ تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھار جرائم میں خود عورتیں ملوث پائی جاتی ہیں، وہ حراست یا قید میں رکھی جا سکتی ہیں۔ ایسے میں اگر وہ خاتون پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں رہیں تو ان خواتین کی جنسی یا کوئی طرح کی غیر ضروری ہراسانی سے بچایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت اس حوالے سے بہت کام ہورہا ہے، گزشتہ دنوں ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا جو روزن کے تعاون سے کیا گیا جس میں بہت سی اچھی تجاویز دی گئیں۔
روزن 1999ء سے پولیس کی استعدادکار کے لیے پولیس کے تربیتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے، ان کی ڈیمانڈ ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ دیں جس کے نتیجے میں عوام اور پولیس کے درمیان اعتماد کی سطح میں بہتری آئے گی، اس کے لیے خصوصی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ پولیس عوامی تقسیم میڈیا اور دیگر سول سوسائٹی کے کردار کو کمیونٹی کے لیے مضبوط بنانا ہوگا۔ پاکستان میں اورینٹڈ پولیسنگ اور پولیس کی تعداد میں سالانہ 10 فیصد اضافہ کریں تاکہ پولیس آبادی کے تناسب کو بالآخر بین الاقوامی کے برابر لایا جا سکے۔ معیارات تھانے کی سطح پر شفٹ کا نظام نافذ کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ لیبر قوانین کے مطابق کام کریں۔ پولیس کے تربیتی نصاب پر نظر ثانی اور اپ ڈیٹ کریں۔ پولیس ٹریننگ اسکولوں/کالجوں کو مطلوبہ مالی، انسانی، بنیادی ڈھانچہ اور تکنیکی معاونت فراہم کریں۔
پولیس انسٹرکٹرز کی تقرری کے لیے معیار وضع کریں، فی الوقت ان کے لیے ایسا کوئی معیار نہیں ہے۔ پولیس کے تمام کیڈرز کے لیے مستقل بنیادوں پر رویہ اور پیشہ ورانہ تربیت کا اہتمام کریں۔ تھانے کے عملے کو سال میں کم از کم ایک بار ریفریشر کورسز سے گزرنا چاہیے۔پی ایف ڈی پی کے مطالبات پولیس ریفارمز کمیٹی (پی آر سی) کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کے مطابق ہو، پاکستان کے لاء اینڈ جسٹس کمیشن (LJCP) کے ذریعے مذکورہ ٹی او آرز کے مطابق پی آر سی تھا۔ ایک ماڈل پولیس قانون کا مسودہ تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ’21ویں صدی کی پولیسنگ کے چیلنجوں کا مقابلہ کرتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے پولیس کو سیاسی طور پر غیر جانبدار، جمہوری طور پر کنٹرول، مؤثر طریقے سے جوابدہ، انتظامی اور آپریشنل طور پر خود مختار اور انتہائی خصوصی پیشہ ورانہ کمیونٹی سروس کا ادارہ ہے۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد 4500 ہے جبکہ اس صوبے میں مرد پولیس اہلکاروں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار سے زیادہ ہے۔اس طرح اگر تناسب کے حساب سے دیکھا جائے تو پنجاب میں ہزار سے زائد خواتین کے معاملے کو دیکھنے کے لیے صرف ایک خاتون پولیس اہلکار ہوگی۔پنجاب میں تھانوں کی تعداد سات سو سے زیادہ ہے اور ان تھانوں میں خواتین کے بطور تھانے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرنے کی شرح آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔
پنجاب کے 36 اضلاع میں 705 تھانے ہیں اور ان میں سے تقریباً پانچ تھانوں میں خواتین پولیس افسر بطور ایس ایچ او اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں۔پنجاب کے صرف تین اضلاع میں خواتین کے پولیس سٹیشن قائم ہیں اور ان اضلاع میں لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی شامل ہیں۔پولیس ریکارڈ کے مطابق اس وقت 80 فیصد تھانوں میں خواتین کے ہیلپنگ ڈیسک بنائے گئے ہیں جہاں پر مرد پولیس اہلکاروں کی معاونت کے لیے ایک یا دو لیڈی کانسٹیبلز کو تعینات کیا گیا ہے۔ان خواتین پولیس اہلکاروں میں سب سے تعداد کانسٹیبل رینک کی اہلکاروں کی ہے اور یہ تعداد 3200 سے زیادہ ہے۔ ان اہلکاروں کو تفتیش میں کوئی تجربہ نہیں اور اگر کسی کو تجربہ ہے بھی تو وہ معمولی نوعیت کے جرائم کے مقدمات ہیں۔صوبہ پنجاب میں اے ایس آئی سے لیکر انسپکٹر کے عہدے تک خواتین پولیس افسروں کی تعداد چار سو کے قریب ہے۔
صوبہ پنجاب میں آئی جی پنجاب فیصل شاہکار پنجاب پولیس میں خواتین کو بہتر ورکنگ ماحول فراہم کرنے کے لیے متحرک ہیں، اس وقت لاہور، فیصل آباد، ملتان سمیت دیگر بڑے شہروں میں خواتین کو تھانوں میں بطور ایس ایچ اوز تعینات کیا جارہا ہے۔ گوجرانوالہ میں خواتین پولیس اسٹیشن کا قیام جلد عمل میں لایا جائے گا،دیگر اضلاع میں خواتین افسران کو فیلڈ پوسٹنگ میں کمانڈنگ رول دیا جارہا ہے۔ گزشتہ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب فیصل شاہکار نے گزشتہ دنوں ایک بیان میں کہا ہے کہ خواتین افسران و اہلکاران پولیس فورس کا انتہائی اہم حصہ ہیں انہیں محکمانہ ترقی، اہم سیٹوں پر پوسٹنگ سمیت لیڈر شپ نمائندگی کے یکساں مواقع دئیے جا رہے ہیں۔
آئی جی پنجاب نے کہاکہ لاہور، فیصل آباد، ملتان سمیت دیگر بڑے شہروں میں خواتین کو تھانوں میں بطور ایس ایچ اوز تعینات کیا جارہا ہے جبکہ گوجرانوالہ میں خواتین پولیس اسٹیشن کا قیام بھی جلد عمل میں لایا جائے گا۔ حال ہی میں پنجاب پولیس ایگزیکٹو بورڈ میں دو سینئرخواتین پولیس افسران کوبطور ممبر شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس اقدام کا مقصد ایگزیکٹو بورڈ میں مناسب نمائندگی دینے کے ساتھ ساتھ محکمانہ فیصلہ سازی خواتین افسران کی آراء سے مستفید ہونا ہے اور صوبے کے تمام بڑے شہروں میں خواتین افسران کو فیلڈ پوسٹنگ میں کمانڈنگ رول دیا جارہا ہے۔
خواتین شہریوں کی سہولت اور مسائل کے ازالے میں خواتین افسران مثالی کردار ادا کرسکتی ہیں اس لئے زیادہ سے زیادہ لیڈی اہلکاروں و افسران کو پولیس فورس کا حصہ بنایا جارہا ہے۔ آئی جی پنجاب نے کہاکہ حالیہ سالوں میں پنجاب پولیس کی بھرتیوں میں خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جو کہ انتہائی خوش آئند ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button