کالمزحیدر جاوید سید

ترقی پسندوں کے مغالطے اور شکوے……حیدر جاوید سید

چین نواز دھڑا بنگلہ دیش کے حصے میں اس کے قائد مولانا بھاشانی تھے۔ یہاں خان عبدالولی خان نیپ کے سربراہ ہوئے۔

پاکستانی ترقی پسند (ماڈریٹ اسلامک یا پھر کمرشل لبرل نہیں) بڑے دلچسپ لوگ ہیں۔ 1970ء کی دہائی سے کچھ آگے یعنی 1980ء کی دہائی کے وسط تک یہ ہمارے یہاں وافر مقدار میں تھے پھر پتہ نہیں کس کی ’’نذر‘‘ لگ گئی۔ ہماری نسل کی جوانی کے برسوں میں نیپ تھی۔ (نیشنل عوامی پارٹی) پھر یہ چین اور سوویت یونین نوازوں کی شناختوں پر تقسیم ہوئی 1971ء میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو ہمارے حصے میں نیپ کا سوویت یونین نواز دھڑا آیا۔ چین نواز دھڑا بنگلہ دیش کے حصے میں اس کے قائد مولانا بھاشانی تھے۔ یہاں خان عبدالولی خان نیپ کے سربراہ ہوئے۔
مزدور کسان پارٹی تھی پاکستان سوشلسٹ پارٹی بھی۔ ترقی پسند خیالات کی حامل طلباء مزدور کسان رابطہ کمیٹی ویسے یہ ایک طرح سے نیپ کی ذیلی تنظیم تھی بعدازاں جب نیپ پر پابندی لگی تو ایک حصہ نیشنل پروگریسو پارٹی کو پیارا ہوا دوسرا این ڈی پی کو۔
ترقی پسندوں کی جس جماعت نے لگ بھگ چار پانچ نسلوں کے نوجوانوں کو متاثر کیا وہ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی بریلوی مسلمانوں کے مہاجر خاندان سے تعلق رکھنے والے سید منور حسن ابتدا میں این ایس ایف کراچی کے سیکرٹری تھے پھر اسلامی جمعیت طلبہ کو پیارے ہوئے جمعیت کے ناظم اعلیٰ تک کے منصب پر پہنچے۔ جماعت اسلامی کے شعبہ خدمت خلق میں رہے مختلف منصبوں سے ہوتے ہوئے ایک دن جماعت اسلامی پاکستان امیر منتخب ہوگئے۔
سید منور حسن مرحوم کا ذکر ضمناً ہوگیا ہم ترقی پسندوں کی بات کررہے تھے سندھ میں ایس این ایس ایف (سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن) اور سندھی ہاری تحریک (حیدر بخش جتوئی والی) ترقی پسندوں کے چہرے تھے۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی کے ترقی پسندوں کی طرح آج بھی بچے کھچے ترقی پسند اچانک چمکتے ابھرتے اور تراشے ہوئے پاپولر ازم کے دیوتائوں کی محبت میں جلدی ہی گرفتاری ہوجاتے ہیں۔
بہت سارے ترقی پسند ملیں گے آپ کو جو ذوالفقار علی بھٹو کو اس بات پر منہ بھر کے کوستے ہیں کہ بھٹو نے سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا موقع ضائع کردیا۔
کیسے ضائع کیا؟ کیا بھٹو کوئی سوشلسٹ لیڈر تھے ان کی جماعت پیپلزپارٹی تو اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، جمہوریت ہماری منزل ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کے چار سلوگنز پر استوار ہوئی۔
اب اگر اس زمانے کے ” محبوب” ترقی پسندوں نے ان چار میں سے تین کو نظرانداز کر کے صرف ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کو سوشلسٹ انقلاب کے بیانیئے کے طور پر ذہن و دل میں بٹھالیا تو اس میں بھٹو کا کیا قصور؟
وہ تو ایک سنٹرل قدرے لبرل اور پاکستانی نیشنلسٹ کے خیالات کے حامل سیاسی رہنما تھے۔
آسان لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اپنی جماعت کے چار سلوگنز (بالائی سطور میں جن کا ذکر کیا) کے ذریعے انہوں نے معاشرے کے مختلف الخیال طبقات کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ بھٹو صاحب نے پنجاب میں بٹوارے کی کوکھ سے جنم لینے والی بھارت دشمنی کو بھی خوبصورتی سے کیش کروایا۔
سوشلسٹوں نے اگر انہیں کسی سوشلسٹ انقلاب کا داعی سمجھ لیا تھا تو یہ سوشلسٹوں کی اندازے کی غلطی تھی اپنی غلطیوں اور اندازوں کی شہ مات کا تجزیہ کرنے کی بجائے اٹھتے بیٹھتے بھٹو کو کوستے متروک سوشلسٹوں نے ویسے کبھی اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ مختلف ادوار میں پاپولرازم کی لہر میں بہہ جانے کی بجائے انہوں نے ملک گیر سطح پر ایک جماعت کے پلیٹ فارم سے خود کو منظم کیوں نہیں کیا۔
یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ گرمیوں خاص طور پر جون جولائی میں اوورکوٹ اور ہیٹ پہن کر ’’کامریڈ ماسکو میں برف باری ہورہی ہے‘‘ کی پھبتی کسے جانے کا پس منظر کیا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کے میدانوں میں عشروں تک یہ بات زبان زد عام رہی کہ سوشلسٹ جب تین سے چار ہوتے ہیں ایک نئی جماعت بن جاتی ہے۔
نیپ سے شروع کیجئے اور دستیاب عوامی ورکرز پارٹی تک چلے آیئے پچھلی چار پانچ دہائیوں میں ان ترقی پسند جماعتوں کے کتے ٹکڑے ہوئے؟ حال ہی میں عوامی ورکرز پارٹی دو حصوں میں بٹ گئی یہ تو ابھی کل کی بات ہے۔
پی ٹی ایم اور پھر این ڈی ایم (نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ) کو خام مال اے این پی سے نہیں ملا کیا؟
ماضی میں مزدور کسان پارٹی کے کتنے حصے ہوئے تھے۔ سوشلسٹ پارٹی کے کتنے ان سب کو ایک طرف رکھیئے کمیونسٹ پارٹی کا کیا ہوا؟
پھر بھٹو کے خلاف بننے والے یو ڈی ایف نامی اتحاد میں اسلام پسند اور ترقی پسند ایک ہی گھاٹ پرتھے آگے چل کر جب جنوری 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد بنا تو این ڈی پی اور مزدور کسان پارٹی (فتح یاب علی خان گروپ) پی این اے کا حصہ تھے۔ ہمارے سامنے کی بات ہے ڈاکٹر مبشر حسن اور معراج محمد خان بالترتیب عمران خان سے انقلاب کی امید باندھ بیٹھے تھے
(اور تو اور بہت سارے ترقی پسندوں کو ڈاکٹر طاہرالقادری میں انقلابی رہنما دیکھائی دیا)
صرف یہی نہیں دیا بلکہ دونوں بزرگوں نے جواب قبروں میں آرام کررہے ہیں اپنے اپنے تئیں لوگوں کو یہ سمجھانے کی بھی کوشش کی کہ ’’عمران خان ’’خام مال‘‘ ہے اس کی تربیت اور رہنمائی کی جائے تو پاکستان کو ایک انقلابی رہنما مل سکتا ہے۔‘‘
دونوں مرحوم بزرگوں کا مختصر وقت میں ہی عمران خان سے جی بھر گیا۔
بھٹو، عمران خان یا کسی اور کو انقلاب کی منزل کھوٹی کرنے کا الزام دینے کی بجائے دستیاب ترقی پسندوں کو اپنے لچھنوں پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہیے۔
بات کڑوی ہے لیکن عرض کئے بنا چارہ نہیں کہ ہمارے ہاں کے ترقی پسندوں کی اکثریت بھی رجعت پسندوں کی طرح مختلف الخیال فرقہ پرست ہی ہے۔ اسلام پسند کھٹ سے اسلام دشمنی کا فتویٰ ٹھوکتے ہیں تو یہ بھی جس سے ناراض ہوں اسے سامراجی دلال سے کم قرار نہیں دیتے۔
ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہمارے اسلام پسندوں کی طرح ترقی پسند بھی زمینی حقائق معروضی حالات اور سماجی الجھنوں سے ناواقف ہیں۔ چند ایک کیا اس سے زیاہ تعداد میں اخلاص کے مارے دستیاب ہیں البتہ کوئی بھی سنجیدگی کے ساتھ ناکامیوں اور تقسیم در تقسیم کا تجزیہ کرنے کو تیار نہیں۔
اسی طرح ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد بڑے بڑے سکہ بند ترقی پسند امریکہ و یورپ سپانسرڈ این جی اوز کو پیارے ہوگئے۔ بعض سوشلسٹ سے راتوں رات لبرل ڈیموکریٹک بھی بن گئے۔
ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ترقی پسند دوستوں نے خود کو انقلاب کے لئے منظم کرنے کی بجائے پاپولرازم کے ٹرک کے پیچھے بھاگنے کو انقلاب کی نشاط ثانیہ کے طورپر لیا کہیں ٹھوکر کھا کر گرے تو گرنے کی وجہ جاننے کی بجائے انہوں نے ٹرک مالک اور ڈرائیور کو کوسنا شروع کردیا۔
ان دنوں بھی بہت سارے پرانے ترقی پسند عمران خان کی ’’انقلابی‘‘ شخصیت کے اسیر ہیں ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر عمران خان کا ساتھ دے کر انقلاب کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
ممکن ہے یہ درست کہتے ہوں لیکن کیا سکیورٹی اسٹیٹ سے لڑبھڑ کر مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں؟
ایک سے زائد بار ان سطور میں عرض کرچکا کہ سکیورٹی اسٹیٹ کی پابند طبقاتی جمہوریت کے کوچے میں سے حکمت عملی کے ذریعے جمہوریت کی منزل کی جانب گامزن ہونے کا راستہ نکالا جاسکتا ہے۔
حکمت عملی پر جذباتیت کو ترجیح دینے سے نقصان ہوگا یعنی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوگی۔
ہمارے ترقی پسند دوستوں کو پاپولرازم کے ٹرک کے پیچھے بھاگنے یا اتفاق سے ٹرک پر جگہ مل جانے کو انقلاب کے لئے
’’نیک بخت‘‘ نہیں سمجھ لینا چاہیے
بلکہ انہیں یہ حقیقت بہرصورت مدنظر رکھنا ہوگی کہ اذہان اور رویوں میں تبدیلی اولین شرط ہے مختلف الخیال طبقات کو شعوری طور پر منظم کرنا دوسری اس کے بعد موثر تنظیم سازی اور حصول مقصد کے لئے جدوجہد ان حقائق اور ضرورتوں کو نظرانداز کئے بغیر ساری بھاگ دوڑ سرابوں کے پیچھے بھاگتے چلے جانے جیسی ہی ہوگی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button