*ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح*….. پیر مشتاق رضوی
قسام ازل کو مسلمانوں کی حالت زار پر رحم آ کیا کیونکہ مسلمان رحمتِ حق کے حقدار بھی ہیں قدرت الٰہیہ نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کا بندوبست کرنا شروع کیا
آج سے ایک صدی قبل جب ملت اسلامیہ وحدت وجود ریاست یعنی خلافت عثمانیہ کے روپ میں قائم دائم تھی اور خلافت عثمانیہ 560 سال سے تقریبا تین سے زائد براعظموں پر بر سرِ اقتدار تھی دشمنان اسلام نے اپنی بھرپور ریشہ دوانیوں اور محلاتی سازشوں سے ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا تھا لسانی علاقائی اور قومیت کے تعصبات کا شکار مسلم قوم کو ملک کے غداروں نے سقوطِ بغداد کی طرح خلیفہ عثمانیہ کو بھی زوال سے دوچار کردیا۔ برصغیر پاک وہند میں بھی مسلمانوں کی 850 سال کی بادشاہت کا خاتمہ ہو رہا تھا انگریز سامراج مکمل طور پر برصغیر پر قابض ہو چکا تھا دنیائے اسلام کو نو آبادیاتی نظام میں جکڑ کر رکھ دیا گیا تھا۔ سامراج کی غلامی کا طوق مسلمانوں کا مقدر بن چکا تھا
برصغیر پر قبضے کے بعد جب مسلمانوں کو ہر قسم کی توارثی دولت، تعلیم و ثقافت سے محروم کردیا گیا تھا یوں کہیں کہ مسلمان اپنی شناخت اور ملی پہچان بھی کھو بیٹھے تھے مسلمانوں میں تفریق در تفریق اور تقسیم در تقسیم سے ان کا قومی تشخص بھی چھین لیا گیا شکست و ریخت کا شکار مسلم قوم کا ملی اتحاد و اتفاق پارہ پارہ کر دیا گیا تھا۔ قسام ازل کو مسلمانوں کی حالت زار پر رحم آ کیا کیونکہ مسلمان رحمتِ حق کے حقدار بھی ہیں قدرت الٰہیہ نے اسلامی نشاۃ ثانیہ کے احیاء کا بندوبست کرنا شروع کیا مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی اورہندوؤں کے غلبہ سے نجات دلانے کے لئے مرد قلندر اقبالؒ کی فکر اور جناح کی قیادت سے مسلمانانِ برصغیر کو نواز۔ 1857ء میں بھی مسلمانوں اور آزادی پسند ہندوؤں نے اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک غیر منظم جنگ آزادی شروع تو کی تھی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی۔ انگریز سامراج نے مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے ایک انگریز مورخ کے مطابق "وہ کونسی آسمانی آفت نہیں تھی جو مسلمانوں پر نازل نہ ھوئی؟”۔
جنگِ آزادی کے دو عشروں بعد اور خلافت عثمانیہ کے زوال سے نصف صدی پہلے اللہ نے مسلمانوں کی حالت پر رحم فرماتے ہوئے 25 دسمبر 1876ء کو ایک ایسا عظیم بطلِ حریت پیدا فرمایا جس نے انیسویں صدی میں ملتِ اسلامیہ کو سامراجی قوتوں سے آزادی دلانے کے لئے بھر پور کوشش کی۔ محمدعلی جناحؒ نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے عالمِ اسلام کی تاریخ بدل ڈالی اور دنیا کے نقشے کو تبدیل کرکے رکھ دیا کیا اقبالؒ کی بصیرت کے ساتھ ساتھ قائدؒ کے تدبر، یقینِ کامل اور مضبوط ارادوں سے تحریکِ آزادی منطقی انجام سے ہمکنار ہوئی اور انگریزی سامراج کو برصغیرِ پاک و ہند کی تقسیم پر مجبور ہوگیا اور ہندوؤں کی مکاریوں کو شکستِ فاش ہوئی۔ بر صغیر پر ہندوؤں کے غلبہ کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا غلام قوم میں خود داری اور خود ارادیت کا جذبہ پیدا کیا غلامی کی دلدل سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کیا۔
” وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم رونما نہیں ہوتا”
قائد اعظمؒ نے اپنی سیاست کا آغاز مسلم ہندو اتحاد کی جدوجہد سےکیا لیکن ہندوؤں کے تعصب اورمسلم دشمنی کی بناء پر قائدؒ نے خود کو مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وقف کر دیا اور مسلم لیگ کو مکمل طور پر اپنا لیا۔ قیام مسلم لیگ کے روزِ اوّل سے مسلمانانِ برصغیر نے اپنی جدوجہد کو انگریزی حکومت کی تابعداری کو قبول کر کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے مخصوص کر رکھا تھا ایک وقت ایسا بھی آیا جب قائداعظمؒ مسلمانوں کےبکھرے وجود اور بکھری سوچ سے مایوس ہو کر انگلستان چلے گئے تھے لیکن مردِ قلندر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے قائدؒ کو انگلستان سے واپس ہندوستان آنے پر قائل کیا قائدؒ نے ایک عزمِ نو کے ساتھ مسلم لیگ کی باگ ڈور سنبھال کر مسلمانوں کو منظم کیا اور مسلم لیگ کو ایک مقبول اور عوامی جماعت بنا دیا۔ اس سے قبل 1911ء میں بر صغیر کے مسلمانوں نے خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کے لیے "تحریک خلافت” چلائی جس میں گاندھی نے اپنے پوشیدہ و مضمر مقاصد کے حصول کے لئے اس تحریک میں مسلمانوں کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں اس تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا جبکہ قائدؒ کے نزدیک تحریکِ خلافت ایک جذباتی جدوجہد تھی جس کا انجام غیر منطقی تھا اس تناظر میں قائداعظمؒ تحفظات رکھتے ہوئے معقولیت کے قائل تھے۔
قائداعظمؒ نے انگریز سامراج کا مقابلہ انگریزی دستور اور انگریزی قوانین سے کیا محمد علی جناحؒ کی وکالت کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں نے جہدوجہد آزادی میں قائداعظمؒ کو اپنی حکمتِ عملی کامیاب بنانے میں مدد دی انھوں نے کبھی عسکریت پسندی کا سہارا نہیں لیا ان کے پاس کوئی مسلح سپاہ تھی نہ ہی مال و دولت کے انبار، جناحؒ کوئی ڈیرے دار ،سردار یا جاگیر دار نہیں تھے عوامی مقبولیت کے علاوہ ان کی اصل دولت اور طاقت ان کا غیر متزلزل عزم ، ایمان اور یقین محکم تھا جب کہ اپنوں اور غیروں ، سب نے قائداعظم کی بھرپور مخالفت کی اپنے لوگ انہیں کافر اعظم کہتے تھے اور قائؒد کے جان کے درپے بھی تھے اس لیے آپ کو جان سے مارنے کے لیے آپ پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے مکار اور چالاک ہندو بنیا دولت مند ساہوکار آپ کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ انگریز سامراج پوری ریاستی اور اقتدار کی طاقت کے ساتھ آپ کی جدوجہد کی راہ میں موجود تھا۔ آپ نے کسی خون خرابے کےبغیر اپنے تمام حریفوں اور مخالفوں کو حق اور صداقت کے اصولوں سے مات دے کر اپنے عظیم مقصد کو حاصل کیا۔ ہندوستان میں 1937 کے انتخابات میں مسلم لیگ مخالف قوتوں کی ریشہ دوانیوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن قائد اعظمؒ اپنے مشن پر ڈٹے رہے کبھی ہار نہ مانی۔ قائدؒ کی بے مثال قیادت اور استقلال نے مسلم لیگ کو ہندوستان کی مسلمانوں کی ملک گیر نمائندہ عوامی جماعت بنایا۔ قائد اعظمؒ نے کانگریس کے اس دعوے کو رد کر دکھایا کہ "کانگریس مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہے”۔ ہندوستان میں رہنے والے سب ایک ہندوستانی قوم کے نظریہ کو باطل ثابت کرکے دکھایا اور اپنے حریفوں اور اتحادیوں کو "دو قومی نظریہ” کی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا جس کا ثبوت 46-1945ء کے عام انتخابات میں تاریخی کامیابی پر منتج تھا اور اپنے مخالفین کو تاریخی شکست سے ہمکنار کیا ان کے الیکشن میں کانگریس نے "اکھنڈ بھارت” کے نام پر الیکشن لڑا اور مسلمانوں نے تقسیم ہند یعنی ”بٹ کے رہے گا ہندوستان“ اور ”بن کے رھے گا پاکستان“، ”لے کے رھیں گے پاکستان” کے منشور پر الیکشن لڑا اور دنیا کو حیران کر دیا برصغیر کے مسلمانوں نے 1937ء کے خطبہ الٰہ آباد کی روشنی میں ایک الگ مسلم ریاست کے حصول کو اپنی منزل بنا لیا تھا لیکن مفکرِ پاکستان اور مصوّرِ پاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ 1938ء میں اس دنیائے فانی سے کوچ فرما گئے اور مسلمانان ِبرصغیر کی تمام تر ذمہ داری قائدؒ کے کاندھوں پر آن پڑی۔ 23 مارچ 1940ء میں مسلمانوں کو اپنے عظیم مقصد کے حصول کے لیے متحد و متفق کیا مسلمانوں نے اس کی بھرتائید و حمایت کی بعد ازاں صرف سات سال کے قلیل عرصہ میں بر صغیر کے مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی بے مثال قیادت میں اپنی منزلِ مراد حاصل کر لی اور اپنی حیران کن عوامی جدوجہد کو کامیاب بنا کر ووٹ کی طاقت سے پاکستان کے قیام کی بنیاد رکھی۔ ریاست ِ مدینہ منورہ کے بعد دنیا کے نقشے پر ایک اور نظریاتی اسلامی مملکت ”پاکستان“ بن کر ابھری بعد ازاں قائدؒ کے دستِ راست شہیدِ ملت لیاقت علی خان نے قرارداد ِ مقاصد پیش کرکے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد رکھی ہے قائد اعظمؒ صرف جنوبی ایشیا اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے نجات دہندہ ہی نہیں تھے بلکہ آپ کی بے مثال قیادت اور کامیاب جدوجہدِ آزادی نے دنیا بھر کے محکوم مسلمانوں کے اندر نئی روح پھونک دی اور جذبہء حریت کو بیدار کیا قائدؒ کی جمہوری اور اصولی جدوجہد کو مثال بنا کر مسلمانوں نے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے زیرتسلط نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کی۔ نوآبادیاتی نظام میں جکڑے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں نے بالآخر آزادی حاصل کی۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ”قائداعظمؒ جنوبی ایشیا کے ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے نجات دہندہ ہیں“۔چلا آپ کی لحد پر تاقیامت ہمیشہ اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے آمین "